ایک اجنبی کی ضمانت کا ایمان افروز واقعہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا واقعہ ہے کہ جب آپ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔آپ کے دور حکومت میں عدل و انصاف پر انتہائی سختی سے عمل درآمد کیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ کے دربار میں ایک ایسا نوجوان لایا گیا جس پر قتل کا الزام تھا ۔ مقتول کے بیٹے اپنے باپ کے قاتل کو سزا دلوانا چاہتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس نوجوان شخص سے دریافت کیا، کیا واقعی تم نے ان کے والد کا قتل کیا ہے؟وہ نوجوان کہنے لگا ،ہاں یہ غلطی مجھ سے سر زد ہوئی ہے ۔
ان کا والد اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں گھس آیا تھا اور میرے منع کرنے کے باوجود بھی باز نہ آیا تب میں نے ایک پتھر اٹھا کے اسے مارا جس سے اس کی وہیں پر موت ہو گئی۔ اگرچہ میری ان کے والد کوقتل کرنے کی پہلے سے کوئی نیت نہیں تھی لیکن پھر بھی ان کے والد کی موت کا ذمہ دار میں ہی ہوں۔
یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مقتول کے ورثاء سے پوچھا ،اب تم کیا چاہتے ہو ؟ملزم نے تو اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے ۔ کیا تم خون بہا لے کر اسے معاف کرتے ہو یا اسے سزا دلوانا چاہتے ہو ۔انہوں نے جواب دیا ،ہم خون بہا نہیں لینا چاہتے اور نہ اسے معاف کرنا چاہتے ہیں ۔اسلامی قانون کے مطابق جرم ثابت ہونے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے موت کی سزا سنادی۔
سزائے موت سنانے کے بعد اس نوجوان نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے درخواست کی کہ اسے تین دن کی مہلت دی جائے تاکہ وہ اپنے ضروری کام نمٹا لے اور اپنے خاندان کو اپنی سزا کے بارے میں آگاہ کر دے جن کا وہ واحد کفیل ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شخص کی درخواست اس شرط کے ساتھ منظور کرلی کہ وہ کوئی ضامن لے آئے جو اس کی ضمانت دے دے۔
چونکہ وہ شخص اجنبی تھا اور اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دربار میں موجود تمام لوگوں پر نظر دوڑائی وہاں پر کوئی بھی ایسا شخص موجود نہیں تھا جو اسے جانتا ہو۔ اجنبی نوجوان نے لوگوں سے درخواست کی کہ کوئی اس کی ضمانت دے دے وہ وقت مقررہ پر ضرور واپس آجاۓ گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے دربار میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے وہ بھی اس نوجوان کو نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی انھوں نے اس اجنبی نوجوان کی ضمانت دے دی ۔چنانچہ اس نوجوان کو تین دن کی مہلت دی گئی ۔ تیسرے روز جب سزا کا وقت آن پہنچا تو بہت سے لوگ عدالت میں جمع ہوگئے ۔ہر کوئی اس نوجوان کی واپسی کا منتظر تھا ۔وقت گزرتا جا رہا تھا لیکن اس نوجوان کا کہیں پر بھی کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ سب لوگ پریشان تھے کیونکہ وہ سب یہ جانتے تھے کہ اگر وہ اجنبی نوجوان مقررہ وقت پر نہ پہنچا تو اس کے بدلے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو سزا دی جائے گی۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے پر کمال درجے کا اطمینان تھا ۔دی گئی مہلت کا وقت ختم ہونے والا تھا سب لوگوں کی نظریں شہر کے داخلی راستے پر جمی ہوئی تھیں کہ اچانک دور سے غبار اڑتا دکھائی دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار ہو کر اسی طرف آرہا تھا۔جب وہ سوار قریب پہنچا تو سب نے پہچان لیا کہ یہ تو وہی نوجوان ہے جس کی ضمانت حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ نے دی تھی ۔
گھوڑے سے نیچے اترتے ہی نوجوان نے خود کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دیا اور کہا کہ وہ سزا پانے کے لیے تیار ہے۔ عدالت میں موجود تمام لوگ اس نوجوان کی واپسی سے بے حد متاثر ہوئے کیوں کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا ۔مقتول کے بیٹے بھی اس شخص سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ آپ نے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کر دیے ہیں اور اس شخص نے اپنے وعدے کی پاسداری کی ہے۔
یہ کہتے ہی انھوں نے اپنے والد کا قتل معاف کر دیا۔بعد میں جب حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیاکہ انہوں نے ایک اجنبی کی ضمانت کیوں دی؟کیونکہ اس ضمانت میں ان کی جان بھی جا سکتی تھی۔ تو حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : میں نے اس نوجوان کے چہرے پر سچائی دیکھی تھی پھر میری غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ ایک اجنبی کی مدد نہ کروں۔