کہف کے معنی غار کے ہیں۔
یہ واقع غار میں پناہ لینے والے اشخاص سے متعلق ہے اسی لیے انہیں اصحاب کہف کہا جاتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گزرے ڈھائی سو سال گزر چکے تھے اور اس زمانے میں ایک نصرانی بادشاہ دقیانوس ہوا کرتا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لایا ہوا دین اپنی اصلی حالت سے بگڑ کر کچھ سے کچھ ہو چکا تھا۔ توحید کے بجائے بت پرستی کا رواج عام تھا۔ بادشاہ بھی بت پرست تھا۔ بت پرستی کے ساتھ ساتھ بادشاہ ظالم بھی تھا۔ اپنی قوم کو بت پرستی پر مجبور کرتا اور جو انکار کرتا اسے طرح طرح کی تکلیفیں دے کر ہلاک کر دیتا۔ کچھ لوگ اپنا دین بچانے کے لیے بھاگے مگر بادشاہ کے سپاہیوں نے ان کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ مارے گئے کئی لوگ جان بچانے کے لیے توحید سے منکر ہو گئے۔
شہر کے کچھ نوجوان لڑکے جن کے دلوں میں ایمان تھا وہ بادشاہ کے ظلم اور اپنی قوم کی حالت دیکھ کر تنگ آ چکے تھے۔ وہ اہل ایمان لڑکے اپنے اپنے گھروں سے نکلے اور شہر سے باہر اہک جگہ پر پناہ لینے کے لیے بیٹھ گئے۔ گھر سے تو سب انفرادی طور پر نکلے تھے مگر اتفاق سے وہ سب لڑکے ایک ہی جگہ پر اکٹھے ہوگئے۔
بادشاہ کے سپاہیوں نے ان کو ڈھونڈ لیا اور پکڑ کر دربار میں پیش کر دیا۔ بادشاہ نے ان کو بت پرستی کی ترغیب دی۔ ایک نوجوان جو ان سب میں بڑے تھے آگے بڑھ کر توحید چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ بادشاہ ان کی ہمت دیکھ کر حیران ہوا اور کہا کہ تمھاری جوانی دیکھ کر چند دن کی مہلت دے رہا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے ان کو کچھ دنوں کے لیے رہا کر دیا اور خود دوسرے شہر چلا گیا۔
نوجوانوں نے باہر آ کر آپس میں مشورہ کیا کہ بہتر ہے کہ بادشاہ کی واپسی سے پہلے شہر چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ واپس آ کر بادشاہ ضرور ان کو بت پرستی پر مجبور کرے گا۔ مشورے کے مطابق سب نوجوانوں نے اپنے ساتھ کچھ رقم اور سامان لیا اور شہر چھوڑ کر چل نکلے۔ جاتے ہوئے ایک کتا بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ شہر سے چند میل کے فاصلے پر ایک غار کے اندر انہوں نے پناہ لے لی اور ان کا کتا غار کے دھانے پر بیٹھ گیا۔ نوجوانوں نے سجدہ ریز ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ان کو اس مصیبت سے نجات مل جائے۔ اللہ نے ان کی دعا سن لی اور ان پر نیند طاری کر دی جس کی وجہ سے وہ سب کے سب گہری نیند سو گئے۔
بادشاہ جب واپس آیا اور ان کو ہر جگہ تلاش کیا مگر ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اسی طرح کرتے کرتے نیند کی حالت میں ہی ان کو تین صدیاں گزر گئیں۔ کئی حکومتیں اور بادشاہ تبدیل ہوئے۔ اس دوران ایک نیک عیسائی بادشاہ کی حکومت آ گئی اس نے لوگوں کو ایمان کی طرف بلایا۔ مذہب کو تبدیل ہوئے صدیاں گزر چکی تھیں بہت سے لوگ بدستور شرک اور کفر پر قائم رہے۔ آخر کار بادشاہ نے تنگ آکر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، پروردگار کوئی ایسی علامت ظاہر فرما جس سے لوگوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا یقین آجائے۔ اس کی دعا قبول ہوئی اور سوئے ہوئے نوجوانوں کی تین سو نو سال بعد آنکھ کھلی۔ شام کا وقت تھا۔ جیسے ہی آنکھ کھلی تو آپس میں کہنے لگے پورا دن ہم سوئے رہے۔ ان کو بھوک بھی تھی اور ساتھ ہی یہ فکر بھی کہ نہ جانے ہمارے بعد کیا فیصلہ ہوا ہو گا۔
مشورے کے بعد ایک نوجوان کو بیجھا گیا کہ وہ بادشاہ کے سپاہیوں سے بچ بچا کر کھانا لے آئے۔ نوجوان جب وہی پرانا سکہ لے کر بازار پہنچا تو دیکھا کہ شہر کا تو نقشہ ہی بدل چکا ہے۔اسی سوچ و وچارکے دوران سودا لینے کے لیے جب سکہ نکالا تو دوکاندار پرانا سکہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ سمجھا شائد نوجوان کو کوئی خزانہ مل گیا ہے۔ شکایت پر بادشاہ کے پاس لے جایا گیا۔ نوجوان نے اپنا سارا قصہ سنایا۔ مورخین کو پہلے سے ایسے نوجوانوں کی داستان کا علم بھی تھا جو ظالم حکمران سے بھاگ کر غائب ہو گئے تھے۔ قصہ سننے کے بعد بادشاہ اور باقی لوگ ان کو لے کر غار کی طرف چل دیے۔ وہ نوجوان ان سے پہلے غار کے اندر داخل ہوا۔ اندر جاتے ہی وہ سب نوجوان غائب ہو گئے۔
اس کے بعد ان کو کسی نے نہیں دیکھا نہ جانے دوبارہ سو گئے یا وفات پا گئے۔ بادشاہ نے ان کے ناموں کا کتبہ تیار کروا کر غار کے دھانے پر نصب کروا دیا۔
قرآن مجید میں ان نوجوانوں کا ذکر سورۃ کہف میں کیا گیا ہے۔ اللہ نے اپنی قدرت سے اس وقت کے لوگوں کو موت کے بعد دوبارہ ذندہ ہونے کی نشانی دیکھا دی۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر دلوں میں ایمان ہو تو اللہ تعالی غیب سے مدد فرما دیتا ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ نیکی کی راہ سے کبھی نہ ہٹیں حالات چاہے کتنے ہی مشکل ہوں۔