یہ واقعہ آج سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے پیش آیا تھا۔ فرعون کے ڈوب کر مرنے کے بعد سمندر نے اس کی لاش کو اللہ کے حکم سے باہر پھینک دیا جبکہ باقی لشکر کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔
مصریوں میں سے کسی شخص نے ساحل پر پڑی اس کی لاش پہچان کر حکومت وقت کو اطلاع دی۔ چنانچہ فرعون کی لاش کو محل پہنچایا گیا جہاں پر اسے حنوط کر کے پوری شان و شوکت کے ساتھ تابوت میں رکھ کر محفوظ کر دیاگیا۔
فرعون چونکہ کہ سمندر میں ڈوب کر مرا تھا اور مرنے کے بعد کچھ عرصہ تک پانی میں رہنے کی وجہ سے اس کے جسم پر سمندری نمکیات کی ایک تہہ جمی رہ گئی تھی۔ قدیم مصریوں نے اس کی لاش پر نمکیات کی وہ تہہ اسی طرح رہنے دی اور اسے اسی حالت میں حنوط کر دیا۔
وقت گزرتا رہا کئی حکومتیں بدلیں، کئی حکمران آئے اور چلے گئے۔ اس دوران زمین کے اوپر بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں یہاں تک کہ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشیں بھی زمین کی تہوں میں چھپ گئیں۔ ان کے نام صرف کتابوں، ان کی تعمیرات اور لوگوں کے ذہنوں میں رہ گئے۔
اس واقعے کے دو ہزار سال بعد اس دنیا میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمدؐ تشریف لائے، ان پر نازل ہونے والی آخری کتاب یعنی قرآن مجید میں فرعونوں کے قصے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے تھے اور اسی سلسلے میں اس فرعون کا جسم محفوظ کرنے کے بارے میں آیت بھی نازل ہوئی تھی جس کی سچائی پر سب مسلمانوں کا پختہ یقین تو تھا، لیکن وہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس خدائی کا دعوے کرنے والے کی لاش کہاں محفوظ کی گئی ہے اور کیسے اسے عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔
1871ء میں مصر کے ایک شہر الغورنیہ سے تعلق رکھنے والے غریب اور معمولی سے آدمی کو فرعونوں کی حنوط شدہ لاشوں کی طرف جانے والے خفیہ راستے تک رسائی مل گئی۔
وہ آدمی قیمتی نوادرات تلاش کرکے بیچا کرتا تھا۔ ایک دن وہ دریائے نیل کے کنارے تبیسہ کے مقام پر اسی سلسلے میں گھوم پھر رہا تھا۔ جہاں اسے ایک خفیہ راستے کا پتہ چلا۔ وہ قیمتی نوادرات کے حصول کے لئے جگہ کھود رہا تھا کہ اسی دوران اسے کچھ لوگوں نے پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔
وہ جس جگہ کو کھود رہا تھا وہاں سے ملنے والے راستے کی جب مسلسل کھدائی کی گئی تو سال1891ء کو دوسری ممیوں کے ساتھ اسی غرق ہونے والے فرعون کی لاش بھی مل گئی۔اس کے کفن پر سینے کے مقام پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ ماہرین ان حنوط شدہ لاشوں کو قاہرہ لے گئے۔ جب ان ممیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا تو فرعون والی ممی پر جمی نمکیات کی تہہ سے تصدیق ہوگئی کہ یہ وہی فرعون ہے جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اللہ نے پانی میں غرق کرکے بدترین انجام سے ہمکنار کیا تھا۔
یہ بہت بڑا واقعہ تھا اس کی تصدیق کے لیے دنیا بھر کے ماہرین آثار قدیمہ اور سائنسدان مصر کی طرف امڈ پڑے۔ مختلف سائنسی ٹیسٹ کرنے کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں نے تصدیق کر دی کہ دوسری سب لاشوں کے برعکس صرف فرعون کی لاش پر ہی سمندری نمکیات کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس تصدیق کے بعد اسے فرعون کی لاش قرار دے کر عجائب گھر میں محفوظ کر دیا گیا۔
جب 1982ء میں فرعون کی لاش خراب ہونے لگی تو اس وقت کی مصری حکومت نے فرانس کی حکومت کو درخواست کی کہ فرعون کی لاش کو خراب ہونے سے بچایا جائے۔ مزید یہ کہ جدید سائنسی ذرائع سے اس کی موت کی اصل وجہ بھی معلوم کی جائے چنانچہ مصری اور فرانسیسی حکومت نے مل کر فرعون کی حنوط شدہ لاش کو فرانس لے جانے کا انتظام کیا۔
جب فرعون کی لاش کو فرانس پہنچایا گیا تو ائیر پورٹ پر اس دور کے فرانسیسی صدر بذات خود حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں، تمام وزراء اور فوج کے افسران کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔
فرعون کی لاش کا استقبال کسی عظیم زندہ بادشاہ کی طرح کیا گیا، فوجی دستوں نے سلامی دی۔ فرعون کی ممی کو ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم کے حوالے کیا گیا۔ اس ٹیم کی سربراہی ڈاکٹر مورس بوکائے نے کی تھی۔ مائیکرو سکوپک ٹیسٹوں کے ذریعے ممی کے تمام اعضاء کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی لاش اور جسم میں سمندری ذرات ابھی تک موجود ہیں اور موت بھی پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
ایک بادشاہ کی موت پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہونا ایک اچھنبے کی بات تھی۔ اسی بات نے ڈاکٹر مورس کوبھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ انھوں نے اس ممی کے بارے مزید جاننے کی کوشش کی تو انھیں معلوم ہوا کہ اس بادشاہ کی موت کے حالات مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک میں تفصیل سے درج ہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ جہاں سے یہ لاش ملی ہے وہ ایک اسلامی ملک ہے چنانچہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ مصر جا پہنچے۔ وہ ایک سائنسدان تھے انھوں نے اس معاملے میں مصر کے ہی ایک سائنسدان سے ملاقات کی۔
مصری سائنسدان نے قرآن پاک کھول کر ڈاکٹر مورس کو سورۃ یونس کی آیات 90 تا 92 کا ترجمہ لفظ بہ لفظ سنایا۔
فرعون کا خدائی کا دعویٰ، اس کا پانی میں ڈوب کر مرنا اور پھر پانی سے نکال کر اس کی لاش کا حنوط ہو جانا اور پھر دوبارہ لاش کا ملنا اور پھر اس کی لاش کو جدید سائنسی دور میں دوبارہ محفوظ کیا جانا۔ ان سب واقعات کا رونما ہونا کوئی عام سی
بات نہیں تھی ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
’’تجھے بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دوں گا‘‘۔
فرعون کی لاش ایسے محفوظ کرکے دنیا کے سامنے لا کر رکھ دی گئی ہے اربوں انسانوں کی آنکھوں کے سامنے بے بسی کے عالم میں اور انتہائی قابل ترس حالت میں موجود ہے۔
ڈاکٹر مورس نے جب فرعون کے متعلق قرآن مجید کی آیات دیکھیں تو آپ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ فرعون کی موت کے دو ہزار سال بعد نازل ہونے والی کتاب میں کیسے اس کی موت کا تفصیلی زکر ہے۔ یقیناً یہ کوئی عام کتاب نہیں بلکہ اللہ کا سچا کلام ہے۔ ڈاکٹر مورس نے حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور قرآن کی سچائی بھی ان پر واضح ہو چکی تھی۔ آپ نے فوراً کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئے۔