قر آن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عبرت و نصیحت کے لیے پہلے زمانے کے واقعات کو بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ "اصحاب الجنہ" یعنی باغ والوں کا ہے۔ اس واقعے کا ذکر قرآن مجید کی سورتوں "سورۃ ن والقلم اور "سورت کہف" میں ملتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے۔
ایک شخص بڑا سخی اور نیک دل تھا۔ اس کے پاس ایک باغ تھا۔ اپنے باغ کی آمدن میں سے اللہ تعالیٰ کا حق ہمیشہ ادا کرتا تھا۔ باغ کی کل پیداوار میں سے اپنے بچوں اور باغ کے خرچ کو نکال کر باقی پیداوار کو اللہ کے راستے میں خرچ کر دیتا تھا۔
جب وہ یہ مشورہ کر چکے تو اسی دوران باغ کے پھل اور کھیتی بھی تیار ہو گئی۔ ایک رات ان سب نے پکی پکی قسمیں کھائیں کہ صبح ہونے سے پہلے رات کو ہی چلو اور رات کو ہی توڑ کر لاؤ تا کہ کسی کو بھی کانو کان خبر نہ ہونے پائے۔
رات کے پچھلے پہر ایک دوسرے کو جگاؤ اور چپکے چپکے دبے پاؤں چلو تا کہ آس پاس کے غریبوں کو پتہ نہ چلے کہ آج پھل توڑنے کا دن ہے، ورنہ اپنے باپ کے دستور کے مطابق شرم کے مارے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی دینا پڑے گا۔
یہ سب منصوبہ بندی کرتے ہوئے اور آپس میں سرگوشیاں کرتے ہوئے باغ کی طرف چل پڑے۔ ان کے باغ میں پہنچنے سے پہلے ہی باغ پر عذاب الٰہی آ چکا تھا۔ اللہ کے حکم سے آگ نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا۔ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی ہری بھری کھیتیاں، سوائے راکھ کے ڈھیروں کے کچھ بھی نہ تھا۔
ایسا معلوم پڑتا تھا کہ یہاں کھی کچھ تھا ہی نہیں باغ تو دور کی بات ہے۔
یہ لوگ جب وہاں پہنچے اور یہ سارا ماجرا دیکھا تو حیران و پریشان رہ گئے۔ پہلے تو آپس میں کہنے لگے ہم لوگ شاید راستہ بھول آئے ہیں۔ پھر جب نشانات دیکھے تو ان کو سمجھ آئی کہ یہی باغ والی جگہ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے برباد ہو چکی ہے۔ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب ہماری بد نیتی اور بخیلی کی وجہ سے ہوا ہے اور پھر ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہیں۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ اس میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے اور برکت آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرنے کی عطا فرمائے۔ آمین۔