ترکی کے خلیفہ سلطان مراد اور ایک اور ایک بزرگ کا جنازہ
ترکی کے خلیفہ سلطان مراد کی عادت تھی کہ وہ بھیس بدل کر عوام کی خبر گیری کرتے تھے، وہ ایک رات وہ اپنی حفاظت پرمامور عہدے دار کے ساتھ گشت پر تھے۔ جب آپ شہر کے ایک کنارے پر پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک شخص نیچے زمین پر گرا پڑا ہے سلطان نے جب اسے جھنجھوڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کی روح تو کافی پہلے ہی پرواز کر چکی تھی۔ لوگ اس
سلطان نے لوگوں کو آواز دی کہ آ کر اس شخص کے جنازے کو اٹھانے میں ہماری مدد کرو۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ جمع ہوگئے۔ سلطان نے بھیس بدل رکھا تھا اس لیے ان کو کوئی پہچان نہ سکا۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے کیوں شور مچا رہے ہو۔
سلطان نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ بیچ بازار ایک آدمی مرا پڑا ہے۔ اس کو کسی نے کیوں نہیں اٹھایا۔ یہ شخص کون ہے اور اس کے گھر والے کہاں ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بہت بڑا گنہگار شخص ہے اسی لیے ہر کوئی اس کے جنازے کو اٹھانے سے گریزاں ہے۔
یہ سن کر سلطان مراد نے کہا چاہے جتنا بھی گنہگار ہو ہے تو مسلمان اور پھر ہم کون ہوتے ہیں کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنے والے۔ چلو اس کو اٹھائیں اور اس کے گھر لے چلیں۔
سلطان کی یہ باتیں سن کر لوگوں مل کر میت گھر پہنچا دیا اور اپنے اپنے گھروں کو چلتے بنے۔
اس کی بیوی نے جب خاوند کا جنازہ دیکھا تو رونے لگی۔سلطان اور سرکاری عہدے دار وہیں پر کھڑے عورت کا رونا سنتے رہے۔ روتے ہوئے اس کی بیوی کہہ رہی تھی کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ تو اللہ کا ولی ہے اور نیک لوگوں میں سے ہے۔ سلطان مراد نے جب عورت کی یہ بات سنیں تو بڑے حیران ہوئے۔ دل ہی دل میں سوچنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
سلطان سے جب رہا نہ گیا تو عورت سے اس کے شوہر کے بارے میں دریافت کیا کہ تو کہہ رہی ہے کہ بہت نیک انسان تھا جبکہ لوگ تو اس کے بارے میں یہ باتیں کر رہے تھے بڑا گنہگار انسان تھا اور اس کی میت کو ہاتھ لگانے سے کترا رہے تھے۔ اس کی بیوی نے کہا کہ مجھے بھی لوگوں سے یہی توقع تھی اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا خاوند ہر روز شراب خانے جاتا اور جتنی ہو سکے شراب خریدتا اور گھر ﻻ کر گڑھے میں بہا دیتا اور کہتا کہ چلو کچھ تو گناہوں کا بوجھ مسلمانوں سے ہلکا ہو گا۔
اسی طرح رات کو ایک بری عورت کے پاس جاتا اور اس کو ایک رات کی اجرت دے دیتا اور کہتا کہ اپنا دروازہ بند کر لے تا کہ کوئی تیرے پاس نہ آئے۔ گھر آ کر کہتا اللہ کا شکر ہے کہ آج اس عورت اور نوجوانوں کے گناہوں کا کچھ تو بوجھ میں نے ہلکا کر دیا ہے۔
لوگ اس کو ان جگہوں پر آتا جاتا دیکھتے۔ میں بھی اسے یہی کہتی تھی کہ یاد رکھ جس دن تو مر گیا۔ لوگوں نے تجھے غسل دینا ہےاور نہ تیری نماز جنازہ پڑھنی ہے اور نہ ہی تجھے دفنانا ہے۔ وہ مسکرا دیتا اور مجھ سے کہتا تم میری فکر مت کرو تم دیکھنا کہ میرا جنازہ وقت کا بادشاہ، علماء اور اولیا کریں گے۔
یہ سنتے ہی سلطان رو پڑے اور کہنے لگے میں سلطان مراد ہوں۔ کل ہم خود اس شخص کو غسل دیں گے۔ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائیں گے اور اس کی تدفین بھی ہم کروائیں گے۔ چنانچہ اس شخص کے جنازے میں حاکم وقت، علما اور عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی بھی کسی کے ظاہری اعمال کو دیکھ کر دل میں اس کے متعلق برا گمان نہیں رکھنا چاہیے۔ کیا معلوم جسے ہم حقیر سمجھ رہے ہوں وہ تقوی کے لحاظ سے کئی درجہ بہتر ہو۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کسی کے متعلق برے گمان سے محفوظ رکھے۔ آمین۔