کوفہ کے اندر ایک عورت اپنی امانت داری کے حوالے سے بہت مشہور تھی۔لوگ دور دور سے اپنی امانتیں اس عورت کے پاس رکھوانے کے لیے آیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ دو دوست اس بڑھیا کے پاس اپنی امانت رکھوانے کے لیے آئے اور ساتھ ہی یہ شرط عائد کر دی کہ جب تک ہم دونوں ایک ساتھ اس کو واپس لینے نہ آئیں تب تک آپ یہ امانت واپس نہیں کریں گی۔
کچھ عرصہ گزرا تو ان دونوں میں سے ایک دوست اس عورت کے پاس آیا اور اپنی امانت کی واپسی کا تقاضا کرنے لگا عورت نے جواب دیا کہ آپ دونوں کو ایک ساتھ آنا چاہیے تھا۔
یہ سن کر وہ شخص رونے لگا اور اپنا سر پیٹنے لگا ساتھ ہی یہ کہنے لگا میرا دوست وفات پا چکا ہے اسی لیے اکیلے ہی مجھے امانت واپس لینے کے لیے آنا پڑا۔
یہ سن کر بوڑھی عورت اس کی باتوں میں آگئی۔ اس سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس کے دوست کی وفات پر افسوس کرنے لگی اور اس کو امانت لوٹا دی۔
وہ شخص امانت لے کر وہاں سے روانہ ہو گیا کچھ عرصہ بعد وہ دوسرا دوست اس عورت کے پاس آیا اور امانت کی واپسی کا تقاضا کرنے لگا وہ عورت اس کو دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئی اور اس کو سارا ماجرہ بتایا کہ تمہارا دوست وہ امانت واپس لے گیا ہے لیکن وہ شخص بضد رہا کہ آپ نے اس کو امانت واپس کیوں کی جبکہ ہماری شرط طے ہوئی تھی کہ جب تک ہم دونوں ایک ساتھ امانت کی واپسی کے لیے نہ آئیں تو وہ امانت واپس نہیں کی جائے گی۔
خیر یہ معاملہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا آپ نے بڑھیا اور اس مرد کی بات بغور سنی آپ کے دربار میں موجود تمام لوگ یہ واقعہ سن کر متعجب تھے اور کچھ لوگ دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ یہ ایک بہت نازک اور مشکل فیصلہ ہے۔
آج تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا فیصلہ نہیں کر پائیں گے لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس معاملے کا فیصلہ کچھ ہی لمحوں میں کر کے ان سب کے منہ بند کر دیے اور سب کو حیران و پریشان کر دیا۔
آپ نے اس شخص سے فرمایا تم دونوں کی شرط یہ تھی کہ جب تک ہم دونوں ایک ساتھ امانت کی واپسی کے لیے نہ آئیں تو امانت واپس نہ کی جائے تو ٹھیک ہے اپنے ساتھی کو بھی ساتھ لے آؤ تو تمہاری امانت تمہیں واپس مل جائے گی حضرت علی کا یہ فیصلہ سن کر وہاں پر موجود تمام لوگ حیرت زدہ گئے۔