وعدے کی پاسداری کی لازوال داستان
مامون الرشید کی پولیس کے سربراہ عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں امیر المومنین مامون الرشید کے دربار میں داخل ہوا تو انھوں نے ایک قیدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ اسے لے جاؤ اور صبح سویرے میرے دربار میں پیش کرنا۔
قیدی کو ہتھکڑیوں اور زنجیروں میں جکڑا گیا تھا اور وہ بے حس و حرکت زمین پر پڑا ہوا تھا۔
راستے میں مجھے خیال آیا کہ امیر المومنین نے جس غیض و غضب سے اس کو حراست میں رکھنے کا حکم دیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بجائے اسے قید خانے میں ڈالنے کے میں خود اسے اپنی نگرانی میں رکھوں۔ اسی خیال سے میں نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو میرے گھر پر چھوڑ دیا جائے۔
سپاہیوں نے میرے حکم پر اسے میرے گھر میں نظر بند کر دیا۔ رات کا کچھ پہر گزرا تو میں نے اس قیدی کو بلا کر پوچھا تم کون ہو اور تمہارا جرم کیا ہے۔ قیدی نے کہا میں دمشق کا رہنے والا ہوں۔ میں نے پوچھا دمشق میں کون سے قبیلے اور کس گھرانے سے تعلق رکھتے ہو؟
جواب میں قیدی نے کہا کہ تم دمشق میں کون کون سے قبیلے اور کس کس گھرانے کو جانتے ہو۔
پھر میں نے قیدی سے پوچھا کیا تم فلاں قبیلے کے فلاں آدمی کو جانتے ہو؟
قیدی نے کہا پہلے تم مجھے اس آدمی سے اپنی دلچسپی کا سبب بتاؤ گے تب ہی میں اس کے بارے میں آپ کو بتاؤں گا ۔
پھر میں نے اسے بتایا کہ میں کسی دور میں دمشق کے گورنر کا افسر تھا۔ وہاں کے لوگوں نے گورنر کے خلاف بغاوت کر دی۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے گورنر پنجرے میں لٹک کر قلعے سے نیچے اترا اور ساتھیوں سمیت فرار ہو نے میں کامیاب ہو گیا۔ میں بھی ان فرار ہونے والوں میں شامل تھا۔
مجھے پکڑنے کے لیے لوگوں کا ایک جتھا میرے پیچھے مسلسل دوڑ رہا تھا۔البتہ میں نہایت تیزی سے بھاگ کر ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ اسی دوران، میں اس آدمی کے گھر کے باہر سے گزرا تواس سے درخواست کی " میری مدد فرمایئے اللہ آپ کی مدد فرمائے گا".
اس نے مجھے اپنے محل نما مکان میں داخل ہونے کو کہا۔ جب میں داخل ہو گیا تو اس کی بیوی نے مجھے فوراً مقصورہ جو کہ میاں بیوی کا خاص کمرہ ہوتا ہے اس میں چھپا دیا۔
اسی دوران مجھے مکان کے دروازے پر لوگوں کا شور شرابہ سنائی دیا جو مالک مکان سے کہ رہے تھے کہ وہ شخص تمھارے گھر میں داخل ہوا ہے، اس شخص نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ اپنی تسلی کے لیے تلاشی لے لو۔
چنانچہ وہ لوگ اندر داخل ہو گئے اور انہوں نے مقصورہ کے علاوہ مکان کا چپہ چپہ چھان مارا۔ پھر وہ آپس میں مشورہ کر کے کہنے لگے کہ وہ مقصورہ میں ہو گا۔ تو مارے خوف کے میری ٹانگیں کانپنے لگیں اور دل پھڑ پھڑا نے لگا۔
اس کی بیوی جو میرے پاس ہی کھڑی تھی اس نے سخت لہجے میں ان سے جانے کو کہا جس کی وجہ سے ان لوگوں نے اندر داخل ہونے کی جرات نہیں کی اور باہر نکل گئے ۔
مجھ پر ایسا خوف طاری ہوا کہ میری ٹانگیں میرا بوجھ برداشت کرنے سے جواب دے گئیں۔ مالک مکان باہر دروازے پر کھڑا ہو گیا اور اس کی بیوی مجھے حوصلہ دینے لگی۔
ڈرو نہیں آرام سے بیٹھ جاؤ۔ اللہ نے تمہیں ان کے شر سے بچا لیا ہے۔ اب تم امان میں ہو۔ یہ سنتے ہی میں نے ان دونوں کو ڈھیروں دعائیں دیں۔
اس کے بعد وہ اللہ کا بندہ مجھ پر مسلسل لطف و کرم کے یادگار موتی برساتا رہا یہاں تک کہ اس نے میرے اندر بیگانگی کا احساس ختم کر دیا۔ اس نے مجھے اپنے محل کے اندر الگ مکان دے دیا، ضروریات زندگی وافر مقدار میں مہیا کیں اور اس کے باوجود صبح شام میری ایسی خبر گیری کی کہ میں اپنے تمام دکھ بھول گیا ۔
میں نے اس کے ہاں اپنی زندگی کے بہترین چار ماہ گزارنے کے بعد اس سے اجازت طلب کی۔ میں نے اس سے کہا کہ اب فتنہ دب گیا ہے اور شہر پر سکون ہے میں اپنے غلاموں کو تلاش کر لوں۔
چنانچہ اس نے واپس آنے کا وعدہ لے کر مجھے اجازت دے دی۔ میں شہر گیا اور غلاموں کا پتہ نہ پا کر واپس آگیا۔ اس دوران میری بے مثال خدمت کرنے کے باوجود اس نے نہ میرا نام پوچھا ، نہ پتہ، نہ عہدہ، بلکہ وہ مجھے میری کنیت سے بلاتا رہا۔
ایک روز میں نے اس سے بغداد جانے کی اجازت مانگی تو اس نے بخوشی اجازت دینے سے قبل مجھ سے کہا کہ میں بغداد جانے والے قافلے کا پتہ کر آؤں اور جس روز وہ قافلہ روانہ ہو اس روز آپ کو الوداع کہوں۔
پھر میں نے اس سے عہد کیا کہ اتنی مدت کے حسن سلوک اور ہمدردی کی بنا پر میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ زندگی بھر آپ کے اس احسان کو نہیں بھولوں گااور حسب طاقت اس کا بہترین صلہ دوں گا۔
اس کے بعد اللہ کے اس نیک بندے نے اپنے غلام کو سفر کے لیے گھوڑا تیار کرنے کا حکم دیا اور خود سامان سفر تیار کرنے میں لگ گیا۔
میں نے سمجھا وہ خود کہیں جانے کی تیاری کر رہا ہے لیکن سارے دن کی دوڑ دھوپ کے بعد وہ بمشکل سویا ہی ہوگا اور علی الصبح مجھے خبر دی کہ آج قافلہ بغداد جانے والا ہے۔ اٹھو اور تیاری کر لو۔
اس دن نہ تو میرے پاس سواری تھی اور نہ ہی زاد راہ۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ وہ شریف انسان میرے لیے اعلیٰ اور نفیس لباس اور جوتے لے آیا۔ تلوار اور پیٹی لا کر میری کمر پر باندھ دی۔ پھر اعلیٰ نسل کے خچر پر دو بھرے ہوئے صندوق رکھ کر اوپر بستر باندھ دیا۔
مجھے گھوڑے پر سوار کر کے ایک غلام بھی ساتھ دیا کہ وہ راستے میں خدمت بجا لائے۔ وہ اور اس کی بیوی کافی دور تک چل کر مجھے الوداع کہنے کے لیے ساتھ آئے اور مجھ سے میری خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی کی معذرت کرنے لگے۔
سچ پوچھو تو اس وقت میرا دل رونے لگا، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں نے بوجھل دل کے ساتھ انہیں واپس بیجھا اور کئی دنوں کا سفر طے کر نے کے بعد بغداد پہنچا۔
یہاں آ کر امیر المومنین کی خدمت کی مصروفیات کی بنا پر آج تک اس کا پتہ خبر لینے سے قاصر رہا۔ میں تم سے اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ شاید میں اس کے احسان کا بدلہ چکا سکوں۔
یہ ساری بات سننے کے بعد اس قیدی نے کہا کہ اللہ رب العزت نے تجھے اس حسن سلوک کا بدلہ دینے کا سنہری موقع عطا کیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟
قیدی نے کہا اللہ کے نیک بندے وہ شخص میں ہی تھا میرے اس حال نے تجھ پر میری شناخت مشکل بنا دی ہے۔ یہ سن کر میرا دل قابو سے باہر ہو گیا۔ میں دیوانہ وار اٹھا اور بیڑیوں سمیت اسے اٹھا کر سینے سے لگا کر اس کے سر کو بوسے دینے لگا۔ اور پوچھا آپ اس نو بت تک کیسے پہنچے؟
قیدی نے کہا دمشق میں تمھارے دور جیسا فتنہ برپا ہوا اور اس کا الزام میرے سر دھر دیا گیا۔ گرفتار کر کے مجھ پر تشدد کیا گیاکہ مجھے زندگی کی امید نہ رہی ۔ پھر مجھے زنجیروں میں جکڑ کر یہاں امیر المومنین کے دربار میں پیش کر دیا گیا۔
ان کے ہاں میرا جرم اس قدر بھیانک ہے کہ وہ لا محالہ مجھے قتل کرا دیں گے۔ جس حال میں مجھے گرفتار کیا گیا ہے اس میں مجھے وصیت کرنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ میرے پیچھے میرا غلام آیا ہوا ہے وہ بغداد میں میرے جاننے والوں کے گھر میں موجود ہے تا کہ وہ میرےگھر والوں کو میرا حال بتا سکے۔ اگر آپ اس احسان کا بدلہ دینا چاہتے ہیں تو اسے بلائیے تا کہ میں موت سے پہلے اسے وصیت کر سکوں۔ اگر آپ نے ایسا کر دیا تو عہد وفا پورا ہو جائے گا ۔
میں نے اسے کہا کہ اللہ بہتر کرے گا پھر میں نے راتوں رات لوہار طلب کر کے اس کی بیڑیاں کٹوائیں۔ گھر کے حمام میں غسل کروایا اور عمدہ لباس پہنا کر اس کے غلام کو بلوایا ۔ جب غلام گھر میں داخل ہوا تو دمشقی آقا اپنے غلام کو دیکھ کر رونے لگااور وصیت کر دی۔ پھر میں نے اپنے نائب کو بلا کر ہدیے لانے اور گھوڑا تیار کرنے کو کہا۔ تا کہ وہ اسے شہر سے باہر چھوڑ دے۔
قیدی نے کہا دیکھو عباس امیر المومنین کے ہاں میرا گناہ بہت بڑا ہے اگر میں فرار ہو بھی گیا تو پھر بھی وہ مجھے اپنے لاو لشکر کے زریعے پکڑ لیں گے اور قتل کروا دیں گے۔ تم خود کو اس معاملےمیں مت پھنساو۔
قیدی نے کہا کہ واللہ میں بغداد سے باہر نہیں جاؤں گااور مسلسل تمھاری خبر رکھوں گا۔ اگر معاملہ کٹھن ہوا تو حاضر ہو جاؤں گا ۔
میں نے اسے کہا کہ چلو اگر تمہارا یہی اسرار ہے تو بغداد کے فلاں محلے میں جا کر ٹھہر جاؤ۔ اگر میں زندہ رہا تو اپنی خبر دوں گا ورنہ خود اپنی جان دے کر تمھارے احسان کا بدلہ چکا دوں گا۔
اسے روانہ کرنے کے بعد میں نے اپنے بارے میں سوچنا شروع کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ موت تو یقینی ہے کفن تیار کر کے غسل کر لیا جائے۔چنانچہ طلوعِ فجر سے پہلے غسل کیا۔ نمازِ فجر سے فارغ ہوتے ہی امیر المومنین کا حکم آیا کہ قیدی کو لے کر ایوان شاہی پہنچو۔
جب میں وہاں پہنچا تو امیر المومنین نے پوچھا مجرم کہاں ہے۔ میری خاموشی پر انہوں نے کہا!
افسوس تجھ پر اگر تم نے کہا کہ وہ فرار ہو گیا ہے تو میں تمہارا سر قلم کر دوں گا۔
میں نے کہا نہیں امیر المومنین وہ ہر گز فرار نہیں ہوا، بلکہ آپ تھوڑی دیر کے لیے میرا اور اس کا قصہ سن لیجئے اور پھر جو جی میں آئے کر گزریے۔
اس کے بعد میں نے امیر المومنین کو مکمل روداد سنائی اور عرض کیا اگر آپ مجھ سے درگزر فرمائیں تو میں نے اپنے محسن سے حق وفا ادا کر دیا۔ اگر آپ مجھے اس پاداش میں قتل کرنا چاہتے ہیں تو میں غسل کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور میرا کفن بھی میری بغل میں ہے۔
یہ سن کر امیر المومنین نے کہا کہ تیرا احسان بھلا کب اس کے درجے کو پا سکتا ہے کیونکہ تو نے پہچاننے کے بعد احسان کیا اور اس نے بغیر جانے پہچانے تجھ پر احسان کیا۔ مجھے پہلے کیوں نہ بتایا کہ تیری طرف سے میں خود اس کے احسان کا بدلہ دیتا۔
میں نے کہا امیر المومنین وہ ابھی دارالحکومت بغداد میں ہی موجود ہے تا کہ میرے معاملے کی خبر رکھے۔ اگر مجھے اپنی جان کا خطرہ درپیش ہو تو وہ میری جگہ پہنچ کر اپنی گردن کٹوا دے۔
یہ سن کر امیر المومنین نے کہا یہ اس کا تجھ پر دوسرا احسان ہے جو پہلے سے بھی بڑا ہے۔ جا اور اسے میرے پاس لا تا کہ تیرے اوپر ہونے والے احسان کا بدلہ میں خود ادا کروں۔ چنانچہ میں خود اس کے پاس گیا اور خوشخبری سنائی کہ بے خوف ہو جاؤ اور امیر المومنین نے آپ کو طلب کیا ہے۔
یہ سن کر اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر وہ سوار ہو کر امیر المومنین کے سامنے پیش ہوا۔ امیر المومنین نے اپنے پاس بٹھا کر گفتگو کی اور اس کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔ پھر اسے دمشق کی گورنری پر متعین کرنا چاہا جو اس نے شکریہ کے ساتھ نا منظور کیا۔ اسے انعام واکرام کے ساتھ الوداع کیا گیا اور ہارون الرشید نے دمشق کے گورنر کو اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا۔