اصحاب السبت | بنی اسرائیل جن کو سزا کے طور پر بندر بنا دیا گیا
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے درخواست کی تھی کہ ہماری عبادت گزاری اور اجتماع کے لیے ہفتہ کے دن مقرر کر دیا جائے۔ اس سے پہلے ان کی عبادت کے لیے جمعے کا دن ہی مختص تھا۔ مگر ان کا اصرار تھا کے ہم ہفتے کے دن ہم اپنا سارا کاروبار اور دنیاوی معاملات چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کریں گے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی اور ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مختص ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
"اور ہم نے بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ ہفتے کا دن تمہاری عبادت کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے، خلاف ورزی نہ کرنا اور خدا سے آگے نہ بڑھنا ہم نے ان سے عہد و قرار لے لیا تھا".(النسا:154)
بنی اسرائیل ایک عرصے تک اپنے وعدے پر پابند رہے لیکن بعد میں وعدہ خلافی کرنے لگے۔
باقی دنوں میں مچھلیاں بہت دور چلی جاتیں اور ان کو پکڑنا بھی بہت مشکل ہوتا۔ کافی عرصے تک یہ لوگ ہفتے والے دن شکار سے باز رہے۔ پھر ان لوگوں نے ہفتے کے دن شکار کے لیے بہانہ تلاش کر لیا۔ یہ لوگ جمعے کے دن مچھلیوں کو پھانسنے کا بندوست کر دیتے جب ان گڑھوں اور جالوں میں مچھلیاں پھنس جاتیں تو اتوار والے دن جا کر وہ ان مچھلیوں کو نکال لیتے۔
ان میں جو لوگ نیک اور ایماندار تھے وہ انہیں اس کام سے منع کرتے تو ان کو یہ جواب دیتے کہ ہم تو ہفتے کو شکار کرتے ہی نہیں۔
روکنے والوں کے علاوہ ایک اور گروہ بھی تھا جو ان دونوں گروہوں کے درمیان صلح صفائی کروانے کی کوشش کرتا تھا۔ نہ وہ شکاریوں کو منع کرتے اور روکنے والوں کو بھی کہتے کہ ان کو چھوڑ دو اللہ خود ہی ان کو عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ روکنے والوں کا یہ موقف تھا کہ شاید یہ باز آجائیں۔
آخرکار تنگ آ کر نیک لوگوں کی جماعت نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور بستی کے درمیان دیوار کھینچ دی۔
دیوار میں ایک دروازہ اپنے لیے اور ایک ان کے لیے الگ سے لگا دیا۔ ایک دن مسلمان جاگے تو دیکھا کہ دن کافی گزر جا نے کے باوجود بھی ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہ کھولا اور نہ ہی ان کی آوازیں آ رہی تھیں۔ یہ معاملہ دیکھ کر نیک لوگ حیران رہ گئے۔
آخر جب ان کی حیرانی بہت بڑھ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف دیکھا تو وہاں عجیب ہی منظر تھا۔ وہ تمام لوگ جو ہفتے کے دن شکار سے باز نہ آئے وہ سب کے سب اپنی عورتوں اور بچوں سمیت بندر بن گئے۔ ان کے بچے چھوٹے بندروں، مرد بڑے اور عورتیں بندریوں کی شکلیں اختیار کر گئے۔ ہر کوئی پہچانا جاتا تھا کہ یہ فلاں مرد، فلاں عورت اور یہ فلاں بچہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حکم کی نا فرمانی کی سزا ان کو یہ ملی کہ ان کی شکلیں ہی بگڑ گئیں۔ اس واقعے کا زکر قرآن مجید کی سورۃ اعراف میں آیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکامات بجا لانے کی تو فیق عطا فرمائے! آمین ۔