حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! پہلے زمانے میں تین آدمی کہیں جا رہے تھے۔رات کا وقت ہوا اور بارش ہونے لگی۔ بارش سے بچنے کے لیے انہوں نے پہاڑ میں موجود ایک غار کے اندر پناہ لی۔
اتفاق سے ایک بڑی چٹان غار کے دھانے پر گری جس سے باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا۔
انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ اس چٹان سے نجات پانے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ
ہم سب اپنے اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا ما نگیں۔
غار میں پھنس جانے والے تین لوگ |
ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ میرا گزر بسر بکریوں پر تھا۔ بکریاں چراتا اور ان کے دودھ سے گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا۔
میرے ماں باپ بہت بوڑھے ہو چکے تھے اس لیے ان سے پہلے گھر کے کسی فرد کو دودھ نہ دیتا جب وہ پی لیتے تو ان کے بعد اپنے بچوں کو پلاتا تھا۔ اتفاق سے ایک دن مجھے بکریوں کے لیے پتے لینے کے لیے دور جانا پڑا ۔
واپسی پر مجھے دیر ہو گئی اور جب میں گھر پہنچا تو والدین سو چکے تھے۔ میں نے بکریوں کا دودھ نکالا اور والدین کے حصے کا دودھ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔
والدین چونکہ سو رہے تھے تو میں نے انہیں نیند سے نہ جگایا اور ان کو پلائے بغیر گھر والوں کو بھی دودھ دینا مناسب نہ سمجھا۔ میں دودھ کا کٹورا لے کر ان کے سرھانے کھڑا ہو گیا کہ جیسے ہی خود ان کی آنکھ کھلے تو ان کو پیش کر دوں گا۔ اسی انتظار میں صبح ہو گئی اور میرے بچے بھی بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میں نے ان کی پرواہ نہ کی اور صبح اپنی مرضی سے والدین جاگے تو ان کو دودھ پلایا۔پھر اس شخص نے دعاکی
اے اللہ! اگر میں نے اس کام کو تیری خوشنودی اور تیری مرضی کے لیے کیا ہے تو اس چٹان کو ہٹا دے۔اس شخص کے اس عمل کی برکت سے چٹان صرف اتنی سی ہٹی کے جس میں سے وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے۔
اس کے بعد دوسرے شخص کی باری آئی تو اس نے کہا! اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنی چچا کی بیٹی سے محبت تھی اور میں اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ بچتی رہی اور مجھے ایسا کرنے کا موقع نہ ملا۔
پھر ایک سال قحط سالی کے دوران اس کے معاشی حالات خراب ہوئے تو بہت مجبور ہو کر میرے پاس آئی اور قرض کی درخواست کی۔
میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط کے ساتھ دیے کہ وہ اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے تا کہ میں اپنی خواہش پوری کر سکوں۔ وہ اس شرط پر راضی ہو گئی۔ جب وہ ہر طرح سے مجبور ہو کر میرے قابو میں آ گئی اور میں بھی اس برے کام پر آمادہ ہو گیا تو اس نے کہا! خدا سے ڈر جا اور وہ کام نہ کر جو تیرے لیے حلال نہیں۔
اس کی اس بات کی وجہ سے میں اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ گیا حالانکہ مجھے اس سے بہت زیادہ محبت تھی اور ان دیناروں کو بھی بلا معاوضہ چھوڑ دیا۔ پھر اس شخص نے اللہ سے دعا کی! "الہی! اگر میں نے اس کام کو محض تیری رضا کے لیے کیا تو اس چٹان کو ہم سے ہٹا دے جس میں ہم گھرے ہوئے ہیں"۔
اس دعا کے بعد چٹان تھوڑی سی اور سرک گئی لیکن باہر نکلنے کا راستہ پھر بھی نہ بنا۔
اب تیسرے شخص کی باری آئی اور اس نے کہا! اے اللہ میں نے ایک مرتبہ مزدوروں سے کچھ کام لیا سوائے ایک کے سب کو مزدوری دے دی وہ اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو زراعت میں لگا دیا اور اس کام میں بہت منافع ہوا۔ کافی عرصے بعد وہ شخص واپس آیا اور اپنی مزدوری طلب کی۔
میں نے اسے کہا کہ یہ سب کچھ اونٹ، گائے ، بیل، بکریاں اور غلام وغیرہ سب تیرے ہیں یہ سب لے جا۔ اس نے کہا کہ اللہ کے بندے مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا مذاق نہیں کر رہا جب اسے یقین ہوگیا تو وہ سب کچھ جو اس کے منافع میں آیا لے کر چلا گیا۔
یہ کہتے ہو تیسرے شخص نے بھی اللہ سے دعا کی
"اے اللہ! اگر میں نے یہ کام تیری رضا مندی کے لیے کیا ہے تو اس چٹان کو ہٹا دے"۔
اب کی بار وہ چٹان سامنے سے ہٹ گئی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نیک اعمال مصیبتوں سے بچاتے ہیں اور کھبی ضائع نہیں جاتے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نیک اعمال کرنے اور گناہ سے بچنے کی توفیق دے۔