ایاز اور اس کے پھٹے پرانے کپڑے

Malik
0

 سلطان محمود غزنوی کے محبوب وزیر ایاز نے اپنے پرانے کپڑے اور جوتے  ایک کمرے میں سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ وہ روزانہ اس کمرے میں جاتا ،اور اپنے پرانے کپڑوں اور جوتوں کو دیکھ کر کہتا! اے ایاز "قدر خود بشناس‘‘ اے ایاز اپنی قدر پہچان ، بادشاہ کی خدمت میں آنے سے

پہلے تیری یہ اوقات تھی۔ پیوند لگے ہوئے یہ کپڑے اور جوتے تو پہنتا تھا۔ اپنے موجودہ مرتبے پر نازاں ہوکر اپنی اصل کو نہ بھول جانا۔



دیکھنے والے بھی قیامت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔اس کا روزانہ اس کوٹھڑی میں جانا  بھلا کب تک پوشیدہ رہ سکتا تھا۔ دوسرے امراء وزراء اس سے حسد کرتے تھے۔

انہوں  نے محمود کے دل میں شبہ ڈالنے کی کوشش کی اور کہا کہ ایاز نے ایک کمرہ زبردست تالوں سے بند کر رکھا ہے ۔ کسی کو اس کے اندر جانے نہیں دیتا اور نہ ہی کسی کو بتاتا ہے کہ اس میں کیا بندہے؟ ہوسکتا ہے شاہی خزانے سے بیش بہا جواہر چرا چرا کر اس میں رکھتا ہو۔

 اس کے کمرے کی تلاشی لی جائے۔اس کی وفاداری کا بھرم کھل جائے گا.... بادشاہ ایاز کی وفاداری

اور پاکبازی پر پورا یقین رکھتا تھا۔ بادشاہ نے کہا مجھے اس غلام پر حیرت ہے اور حکم دے دیاکہ اس کمرے کے قفل کھولے جائیں اور جتنا مال و دولت اس نے ذخیرہ کیا ہوا ہے اس کے متعلق مجھے آگاہ کیا جائے۔

’’ایسے گندم نما جو فروش کا پردہ ضرور چاک کرنا چاہیے۔ بادشاہ کا حکم پاتے ہی حاسدین نے قفل توڑ ڈالا اور یوں اندر تھے جیسے چھاچھ سے بھرے ہوئے  گہرے برتن میں

مکھی مچھر گھس جاتے ہیں ۔انہوں نے کوٹھڑی کا گوشہ گوشہ چپہ چپہ چھان مارا سوائے بوسیدہ کپڑوں اور جوتوں کے کچھ نہ ملا۔ آپس میں کہنے لگے ایاز بہت چالاک ہے ضرور اس 

نے زرو جواہر دفن کر رکھے ہوں گے۔ انہوں کے کدالیں اور بھاوڑے لے کر سارے

کمرے کا فرش کھود ڈالا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔ پھر جھنجھلا کر کوٹڑی کی دیوار میں توڑنے لگے شاید وہ خزانہ اینٹوں کے اندر چھپا ہوا ہو۔ اینٹوں کی تلاشی سے بھی خزانہ نہ ملا ۔

آخر ندامت اور پشیمانی کا پسینہ ان کی پیشانیوں سے بہہ بہہ کر چہرے پر آنے لگا۔ ان کی گمراہیوں اور بےہودگیو ں کا ثبوت وہ گڑھے اور ٹوٹی ہوئی دیواریں تھیں جنھیں ان حاسدین نے حسد کی

آگ میں اندھے ہو کر گرایا تھا۔اس بے ہودہ کارروائی کے بعد انہیں یہ خوف دامن گیر ہواکہ بادشاہ کو کیا جواب دیں گے ۔ آخر کار اپنی جان سے مایوس ہوکر روتے اور چہروں پر

گردوغبار ملتے ، بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ بادشاہ نے پوچھا:’’ تم نے یہ کیا حال بنارکھا ہے اور وہ مال و دولت کہاں ہے جو تم ایاز کے کمرے سے برآمد کر کے لائے ہو۔



 تمہاری صورتوں پر وحشت کیوں برس رہی ہے اور تمہارے رخساروں کا خون کون چرا کر لے گیاہے ۔ بادشاہ کے ان کلمات کی تاب نہ لا کر سب کے سب حاسد بادشاہ کے قدموں میں گر

پڑے۔ان میں اتنی ہمت نہ رہی کہ بادشاہ کے رو برو کھڑے رہتے سلطان نے ارشاد فرمایا:”میں تمہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی سزادوں گا"۔ یہ معاملہ ایاز کی صوابدید پر ہے۔ کیونکہ تم اس کی آبرو

سے کھیلے ہو۔ گہرے گھاؤ اس نیک دل کی روح پر لگے ہیں ۔‘‘ سلطان محمود نے ایاز کوطلبب کر کے فرمایا: ”اے نیک بخت تو اس امتحان میں سرخرو نکلا۔ یہ مجرم تیرے ہیں اور تجھے پورا

اختیار ہے۔انہیں جو چاہے سزا دے‘‘ایاز عرض کرنے لگا:’’ بادشاہ حکمرانی تجھی کو ہی زیبا ہے۔ جب آفتاب اپنارخ روشن دکھا تا ہے تب ستارے نابود ہو جاتے ہیں ۔ سلطان محمود کہنے لگا: یہ تو بتاؤ

تم ہر روز اس کمرے میں اکیلے داخل ہو کر کیا کرتے ہو۔ اس بھید سے ہمیں بھی تو آگاہ کرو.

تجھے ان پرانے کپڑوں اور بوسیدہ جوتوں سے کیا وابستگی ہے تم کیوں ان کے سحر عشق میں گرفتار ہو۔ انہیں مخاطب کر کے باتیں کرتے ہو۔ انہیں کوٹھڑی میں چھپا رکھا ہے۔ کیا وہ

قمیص حضرت یوسف علیہ السلام کا پیراہن ہے؟ اور وہ جوتے کس عظیم ہستی کے ہیں؟ جنھیں توچھاتی سے لگا تا ہے۔ یہ کیا جنوں اور حماقت ہے۔ یہ تو نہایت ادنی قسم کی بت پرستی معلوم

ہوتی ہے۔ایاز کی آنکھوں سے موتیوں کی لڑی جاری تھی ،عرض کرنے لگا۔’’اے بادشاہ سلامت میرا موجودہ مرتبہ آپ ہی کے لطف و کرم کا مرہون منت ہے ورنہ میں تو حقیقت میں ایک مسکین اور بے نوا آدمی ہوں اور یہی پرانے کپڑے اور جوتے پہننے کے لائق ہوں۔

’’یہ میری غریبی کے دنوں کی یادگار ہیں‘‘۔ ان کی حفاظت کرنے سے میری غرض یہ ہے کہ اپنے

بلند منصب اور شان پر مغرور ہو کر کہیں اپنی حقیقت کو نہ بھول جاؤں ۔اصل میں میں ان کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اپنی اصلی ذات کی حفاظت کرتا ہوں‘‘

اخلاقی سبق!

انسان کو ہر دم اپنی حقیقت سے آگاہ رہنا چاہئے ۔ ورنہ بعض لوگ اپنی حقیقت کو فراموش کر کے خدا بنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا نتیجہ خسارے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

(یہ واقعہ حکایات رومی سے ماخوذ ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !