حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور غریب بدو کا واقعہ

Daily Blogger
1

 خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے دور میں ایک بدو آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ملنے مدینے کی طرف روانہ ہوا۔ جب مدینے کے پاس پہنچا تو  رات کا وقت ہو چکا تھا۔ اس کے ساتھ اسکی حاملہ بیوی  بھی تھی۔  شہر تک پہنچنے کے لیے ابھی تھوڑا اور سفر باقی تھا، جو کہ رات ہو جانے کی وجہ سے ممکن نہیں تھا تو اس نے مدینے کی حدود کے پاس ہی خیمہ لگا لیا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ 

 بچے کی ولادت کا وقت بھی قریب تھا تو اس کی بیوی درد سے کراہنے لگی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حسب معمول رات کے گشت پر تھے۔ آپ کے ساتھ ایک غلام بھی تھا۔



جب آپ نے دیکھا کے  بستی سےدور شہر کی حدود کے پاس آگ جل رہی ہے اور خیمہ لگا ہوا ہے تو آپ نے غلام کو بھیجا کہ معلوم  کرو کون ہے ۔غلام نے جب قریب جا کر پوچھا تو اس نے ڈانٹ دیا کہ تمہیں کیوں بتاؤں؟  اس کے بعد آپ  خود گئے اور پوچھا تو اس نے پھر بھی بتانے سے انکار کر دیا۔ آپ نے کہا کہ اندر سے کراہنے کی آواز آرہی ہے۔ کوئی درد سے چیخ رہا ہے ، بتاؤ بات کیا ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے ملنے مدینہ آیا ہوں ، میں غریب ہوں اور صبح مل کے چلا جاؤں گا۔

 رات ابھی زیادہ ہے تو خیمہ لگایا ہے اور صبح ہونے کا انتظار کر رہا ہوں۔ بیوی امید سے ہے اور ولادت کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔ 

یہ سن کر آپ جلدی سے واپس پلٹے اور اس سے کہا کہ صبر کرو میں آتا ہوں۔ آپ اپنے گھر گئے اور فوراً اپنی زوجہ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ اگر تمہیں بہت بڑا اجر و ثواب مل رہا ہو تو لے لو گی؟

 زوجہ نے کہا کیوں نہیں؟ تو آپ نے کہا میرے دوست کی بیوی حاملہ ہے۔ وقت قریب ہے، چلو اور جو سامان پکڑنا ہے ساتھ پکڑ لو۔ آپ کی بیوی نے ضروری سامان لیا اور آپ کو لکڑیاں اٹھانے کو کہا۔ آپ نے لکڑیاں خود اٹھائیں اور چل پڑے۔

  جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیوی کے ہمراہ وہاں پہنچے تو  اہلیہ فوراً کام میں لگ گئیں،  بدو ایسے حکم چلاتا جیسے آپ شہر کے کوئی سرکاری چوکی دار یا غلام ہیں۔ کبھی پانی مانگتا تو آپ دوڑے دوڑے پانی دیتے۔ 


کبھی پریشانی میں پوچھتا کہ تیری بیوی کو یہ کام آتا بھی ہے یا نہیں؟ آپ اسے تحمل سے جواب دیتے، جبکہ اس کو کیا علم  کہ آپ خود امیر المومنین حضرت عمر فاروق ہیں۔ جب بچے کی ولادت ہوئی تو آپ کی زوجہ نے آواز لگائی امیر المومنین بیٹا ہوا ہے۔ 

 امیر المومنین کی آواز سن کر اس بدو کی تو جیسے پاؤں تلے زمین سرک گئی اور بے اختیار پوچھنے لگا  کیا  آپ ہی امیر المومنین عمر فاروق ہیں ؟ وہی جس کے نام سے قیصر و کسریٰ کانپتے ہیں، وہی عمر جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا مانگ کر اسلام کے لیے مانگا؟  آپ نے کہا ہاں میں ہی عمر ہوں ۔ اس نے کہا کہ ایک غریب کی بیوی کے کام کاج میں خاتونِ اول لگی ہوئی ہیں اور  خود آپ دھوئیں کے پاس بیٹھے میری خدمت کرتے رہے۔

تو سیدنا عمر رو پڑے اس بدو کو گلے سے لگایا اور کہا  تجھے پتا نہیں کہ تو کہاں آیا ہے ؟  یہ مدینہ ہے، میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ ، یہاں امیروں کے نہیں،  غریبوں کے استقبال ہوتے ہیں، غریبوں کو عزتیں ملتی ہیں، یہاں پر مزدور اور یتیم بھی سر اٹھا کر چلتے ہیں۔ 

اس کے بعد آپ اپنی اہلیہ کو لیا اور وہاں سے واپس روانہ ہوئے جاتے ہوئے بدو سے کہا کہ تم کل صبح میرے پاس آنا تاکہ سرکاری خزانے سے تمہاری مالی امداد کی جا سکے ۔

سبحان اللہ! دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا عادل حکمران عطا فرمائے۔ آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

1تبصرے
  1. اللہ تعالی ہمیں بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جیسا حکمران عطا فرمائے۔آمین

    جواب دیںحذف کریں
ایک تبصرہ شائع کریں

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !