قیصر روم اور مسلمان جنگی قیدی

Daily Blogger
0

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی  حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور قیصر کی فوج کے درمیان لڑائی  طول پکڑ گئی، قیصر مسلمانوں کی بہادر اور ثابت قدمی پر حیران ہوا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کا کوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے۔


حضرت عبد اللہ بن حذافہ کو لا کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاوں میں ہتھکڑیاں تھی، قیصر نے ان سے بات چیت شروع کی تو ان کی ذہانت  دیکھ کر حیران رہ گیا۔ قیصر نے آپ کو پیش کش کی کہ نصرانیت قبول کر لے تجھے رہا کر دوں گا۔

 حضرت عبد اللہ نے کہا نہیں قبول کروں گا۔

پھر قیصر نے کہا کہ نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تجھے دے دوں گا

آپ نے اسے بھی رد کر دیا۔

قیصر نے تیسری مرتبہ کہا نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تجھے حکمرانی میں شریک کروں گا۔

 حضرت عبد اللہ نے کہا نہیں، اللہ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباء و اجداد کی مملکت، عرب و عجم کی حکومتیں بھی دے دو تو میں پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا۔

قیصر غضبناک ہوا اور کہا: تجھے قتل کر دوں گا۔

آپ بولے مجھے قتل کر دے۔ قیصر نے حکم دیا کہ ان کو ایک ستون پر لٹکا کر ان کے آس پاس تیروں کی بارش کی جائے پھر اس کو عیسائیت قبول کرنے یا موت کو گلے لگانے میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے۔

جب قیصر نے دیکھا کہ اس سے بھی بات نہیں بنی اور وہ کسی حال میں بھی اسلام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو حکم دیا کہ اس کو قید میں ڈال دو اور کھانا پینا بند کر دو۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھانا پینا نہیں دیا گیا یہاں تک کہ پیاس اور بھوک سے موت کے قریب ہو گئے تو قیصر کے حکم سے شراب اور خنزیر کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا گیا۔

جب آپ نے یہ دیکھا تو کہا اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ میں وہ پریشان حال ہوں جس کے لیے یہ  کھانا حلال ہے، مگر میں کفار کو خوش کرنا نہیں چاہتا، یہ کہہ کر کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ یہ بات قیصر کو بتائی گئی تو اس نے آپ کے لیے بہترین کھانا لانے کا حکم دیا، اس کے بعد ایک حسین و جمیل لڑکی کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ ان کو چھیڑے اور فحاشی کا مظاہرہ کرے۔ اس لڑکی نے بہت کوشش کی مگر آپ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہے۔ جب لڑکی نے یہ دیکھا تو غصے سے باہر چلی آئی اور کہا تم نے مجھے کیسے آدمی کے پاس بھیجا میں نہیں سمجھ سکی کہ وہ انسان ہے یا پتھر۔  اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ میں مرد ہوں یا عورت۔

جب قیصر کا ہر حربہ ناکام ہوا اور وہ  حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مایوس ہوا تو ایک پیتل کی دیگ منگوائی اور اس میں تیل ڈال کر خوب گرم کیا اور آپ کو اس دیگ کے سامنے لایا اور ایک دوسرے مسلمان قیدی کو زنجیروں سے باندھ کر لایا گیا اور ان کو اٹھا کر اس ابلتے تیل میں ڈالا گیا جس کی وجہ سے وہیں پر ان کی دردناک موت ہو گئی،  حضرت عبد اللہ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، اب ایک بار پھر قیصر آپ کی طرف متوجہ ہوا اور نصرانیت قبول کرنے اور اسلام چھوڑنے کی پیش کش کر دی مگر آپ نے انکار کر دیا۔

قیصر غصے سے پاگل ہونے لگا اور حکم دیا کہ اس دیگ میں موجود تیل اٹھا کر عبد اللہ کے سر پر ڈال دیا جائے، جب قیصر کے کارندوں نے دیگ کھینچ کر آپ کے قریب کی اور اس کی تپش کو عبد اللہ نے محسوس کیا تو وہ رونے لگے آپ کی  آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ یہ دیکھ کر قیصر خوشی سے جھومنے لگا اور کہا اب بھی نصرانیت قبول لو معاف کر دوں گا۔ آپ نے پھر انکار کر دیا۔ قیصر نے کہا تو پھر رویا کیوں ؟

حضرت عبد اللہ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میری ایک ہی جان ہے جو اس دیگ میں ڈالی جائے گی۔ ۔ میری تو یہ خواہش ہے کہ میرے سر کے بالوں کے برابر جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے اللہ کی راہ میں نکلیں۔

یہ سن کر قیصر نے مایوسی کے عالم میں عبد اللہ سے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سر کو بوسہ دو اور میں تمہیں رہا کروں ؟

آپ نے کہا اگر میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر تے ہو تو میں تیرے سر کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہوں۔

قیصر اس شرط پر راضی ہو گیا۔

آپ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمان ساتھیوں کو رہا کرنے کے لیے اس کافر کے سرکو بوسہ دیا اور سارے مسلمان رہا کر دیے گئے۔

جب  آپ ساتھیوں سمیت واپس  حضرت عمر بن الخطاب کے پاس پہنچے اور آپ کو واقعہ بتا دیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا عبد اللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دینا ہر مسلمان پر ان کا حق ہے اور خود اٹھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر کو بوسہ دیا۔ 

دعا ہے کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ صحابہ کرام جیسی ثابت قدمی عطا فرمائے۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !