مولانا صاحب بازار سے گزر رہے تھے، مولانا صاحب کے سامنے کریانے کی ایک دکان تھی ایک درمیانی عمر کی خوبصورت عورت دکان پر کھڑی تھی اور دکاندار مسلسل اس خاتون کو دیکھے جا رہا تھا۔
وہ جس چیز کی طرف اشارہ کرتی دکاندار فوراً بوری سے وہ چیز نکالتا اور تھیلے میں ڈال دیتا۔
یہ عجیب منظر تھا۔ دکاندار ٹکٹکی باندھے گاہک کو دیکھے جا رہا تھا اور گاہک انگلی کے اشارے سے دکاندار کو پوری دکان میں گھما رہا تھا۔ دکاندار بے جان پتلی کی طرح چپ چاپ اس کے اشاروں پر ناچ رہا تھا۔
خاتون نے آخر میں لمبی سانس لی اور دکاندار کو حکم دیا "چلو بس کرو آج کی خریداری مکمل ہو گئی۔۔۔۔"
دکاندار نے چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کے منہ بند کئے یہ تھیلیاں بڑی بوری میں ڈالیں بوری کندھے پر رکھی اور خاتون سے بولا "چلو میں اب یہ سامان تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں۔۔۔۔"
خاتون نے اثبات میں گردن ہلائی اور پوچھا "کتنا حساب ہوا۔۔۔۔؟"
دکاندار نے جواب دیا عشق میں حساب کتاب نہیں ہوتا۔۔۔۔"
خاتون نے غصے سے اس کی طرف دیکھا واپس مڑی اور گھر کی طرف چل پڑی دکاندار بھی بوری اٹھا کر خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا۔
مولانا صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔دکاندار خاتون کے ساتھ چلا گیا تو مولانا صاحب دکان کے باہر تھڑے پر بیٹھ گئے اور شاگرد گلی میں کھڑے ہو گئے ۔۔۔ دکاندار تھوڑی دیر بعد واپس آگیا، مولانا صاحب نے دکاندار کو قریب بلایا اور پوچھا "یہ خاتون کون تھی۔۔۔۔؟"
دکاندار نے ادب سے ہاتھ چومے اور مولانا صاحب کو خاتون کے بارے میں بتایا۔
مولانا صاحب نے پوچھا "تم نے اسے بغیر تولے سامان باندھ دیا پھر اس سے رقم بھی نہیں لی کیوں۔۔؟"
دکاندار نے عرض کیا "مولانا صاحب میں اس عورت کے عشق میں مبتلا ہوں اور انسان جب کسی سے عشق کرنے لگتا ہے تو پھر اس سے حساب نہیں کر سکتا"
دکاندار کی یہ بات سیدھی مولانا صاحب کے دل پر لگی ۔۔۔ وہ چکرائے اور بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے، شاگرد دوڑے مولانا صاحب کو اٹھایا ان کے چہرے پر پانی چھڑکا، ان کی ہتھیلیاں اور پاؤں رگڑے مولانا صاحب نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں۔
دکاندار گھبرایا ہوا تھا وہ مولانا صاحب پر جھکا اور ادب سے عرض کیا "جناب اگر مجھ سے غلطی ہو گئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔۔۔"
مولانا صاحب نے فرمایا "تم میرے محسن ہو میرے مرشد ہو کیونکہ تم نے آج مجھے زندگی میں عشق کا سب سے بڑا سبق دیا"
دکاندار نے حیرت سے پوچھا "جناب وہ کیسے۔۔۔؟"
مولانا صاحب نے فرمایا "میں نے جانا تم ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر حساب سے بیگانے ہو جبکہ میں اللہ کی تسبیح بھی گن گن کر کرتا ہوں، نفل بھی گن کر پڑھتا ہوں اور قرآن مجید کی تلاوت بھی اوراق گن کر کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالٰی سے عشق کا دعوٰی کرتا ہوں تم کتنے سچے اور میں کس قدر جھوٹا عاشق ہوں۔"
مولانا صاحب وہاں سے اٹھے ۔۔۔ اپنی درگاہ پر واپس آئے اور اپنے استاد حضرت شمس تبریز کے ساتھ مل کر عشق کے چالیس اصول لکھے۔ ان اصولوں میں ایک اصول "بے حساب اطاعت" بھی تھا۔
یہ مولانا صاحب حضرت مولانا رومی رح تھے، اور یہ پوری زندگی اپنے شاگردوں کو بتاتے رہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں نعمتیں دیتے ہوئے حساب نہیں کیا، چنانچہ تم بھی اس کا شکر ادا کرتے ہوئے حساب نہ کیا کرو اپنی ہر سانس کی تار اللہ کے شکر سے جوڑ دو اس کا ذکر کرتے وقت کبھی حساب نہ کرو یہ بھی تم سے حساب نہیں مانگے گا اور یہی عشقِ الٰہی کا تقاضا ہے۔
!دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نیک لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین