سلطان محمود غزنوی اور قیمتی پتھر
بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا۔ سلطان محمود دربار میں داخل ہوئے۔ دربار میں تمام وزراء اور امراء موجود تھے بادشاہ سلامت کے ہاتھ میں ایک قیمتی پتھر تھامے ہوئے تھا۔
بادشاہ سلامت نے وہ قیمتی پتھر دربار میں موجود وزیر کو دکھایا اور پوچھا کہ بتاؤ اس پتھر کی کیا قیمت ہو گی؟
وزیر نے کافی دیر جانچ پڑتال کی اور اپنے علم کے مطابق جواب دیا کہ حضور یہ پتھر تو بیش قیمت معلوم ہوتا ہے۔ ۔ غلام کی رائے کے مطابق ایک من سونے کے برابر اس کی مالیت ہوگی ۔’’بہت خوب‘‘!ہمارا اندازہ بھی یہی تھا۔سلطان نے حکم
دیا۔اسے توڑ ڈالو۔ وزیر در بار نے حیرت سے سلطان کی طرف دیکھا اور ہاتھ باندھ کر بولا ’’جہاں پناہ اس موتی کو کیسے توڑوں میں تو حضور کے مال و متاع کا نگران اور خیرخواہ ہوں ۔
سلطان نے کہا: ہم آپ کی اس خیر خواہی سے خوش ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد سلطان نے وہی موتی نائب وزیر کو دیا اور اس کی قیمت دریافت کی ، وزیر نے عرض کیا۔
حضور عاجز ہوں اس کی قیمت کا اندازہ کرنے سے حکم دیا اچھا اسے توڑ دو۔ وہ عرض کرنے لگا۔
پھر چندلمحوں بعد وہی موتی امیر الامراء کو دیا اور کہا اسے توڑ ڈالیے۔
اس نے بھی عذر پیش کر کے توڑنے سے معذرت کر لی ۔ بادشاہ نے سب کو انعام واکرام دیا۔
اوران کی وفاداری اور اخلاص کی تعریف کی ، بادشاہ جوں جوں درباریوں کی تعریف کر کے ان کا مرتبہ بڑھا تا گیا۔
توں توں وہ ادنی درجے کے لوگ صراط مستقیم سے بھٹک کر اندھےکنویں میں گرتے گئے ۔ وزیر دربار کی دیکھا دیکھی امیروں اور وزیروں نے ظاہر کیا کہ وہ شاہی دولت کے وفادار اور نگران ہیں۔
آزمائش اور امتحان کے لمحوں میں تقلید کرنے والا ذلیل وخوار ہوتا ہے۔
سلطان نے تمام در باریوں اور خیر خواہان دولت کی آزمائش کر لی۔آخر میں سلطان نے وہ موتی ایاز کو دیا اور فرمایا
اے ایاز ! اب تیری باری ہے بتا اس موتی کی کیا قیمت ہوگی ۔
ایاز نے عرض کیا اے آقا! میرے ہر قیاس سے اس کی قیمت زیادہ ہے ۔’’اچھا تو پھر ہماراحکم ہے تم اسے توڑ دو ایاز نے فورا اس ہیرے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
وہ غلام آقا کے طریق امتحان سے آگاہ تھا۔ اس لئے کسی دھوکے میں نہ آیا۔ موتی کا ٹوٹنا تھا کہ سب در باری کیا امیر کیا وزیر بری طرح چلا اٹھے ارے بے وقوف تیری یہ جرأت کہ ایسا نادر و نایاب موتی توڑ ڈالا ذرا خیال نہ کیا کہ کس قدر نقصان کیا ہے۔ ان کا شور شرابہ سن کر ایاز نے تمام درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئےکہا
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ موتی کی قیمت زیادہ ہے یا شاہی فرمان
کی؟ تمہاری نگاہ میں شاہی حکم زیادہ وقعت رکھتا ہے یا یہ حقیر موتی تم نے ہیرے کو دیکھا اس کی قیمت اور چمک کو دیکھا مگر اس حکم دینے والے کو نہ دیکھا۔ وہ روح نا پاک اور بدخصلت ہے جو ایک حقیر پتھر کو نگاہ میں رکھے اور فرمان شاہی کو نظر انداز کر دے۔
جب ایاز نے یہ راز سر عام کھولا تب تمام ارکان دولت و منصب کی آنکھیں کھلیں ۔ ندامت اور ذلت سے یہ حال تھا کہ کسی کی گردن او پر نہیں اٹھتی تھی۔ سلطان کے سامنے یہ عذر پیش کرنا چاہا
کہ وہ آپ کی خیر خواہی میں شاہی فرمان کی اہمیت کو بھول گئے تھے سلطان نے کہا معمولی پتھر کے مقابلے میں تم میرا حکم تو ڑنا زیادہ ضروری سمجھتے ہوں۔ یہ کہہ کر جلاد کو حکم صادر کر دیا کہ ان سب نافرمانوں کی گردنیں اڑا دو۔ وزراء خوف سے تھر تھر کانپنے لگے۔
ایاز کوان کی بے بسی پر رحم آیا، ہاتھ باندھ کر سلطان سے عرض کرنے لگا۔ اے آقا! اور اے معاف کر دینے والے، ان بد بختوں کی غفلت اور نادانی کا سبب محض تیرا کرم اور صفت عفو کی زیادتی ہے۔ آپ کی ناراضگی ان کے لیے سو موتیوں سے بھی بدتر ہے۔ آپ کی
مہربانیاں ہم پر غالب ہیں اور ہم ان کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں میری کیا حیثیت اور کیا حقیقت مگر اتنا عرض کرتا ہوں کہ ان مجرموں کے سر بھی تیری ہی دیوار سے لگے ہیں۔ یہ لوگ آزمائش پر پورا نہیں اترے مگر اتنا تو ہوا کہ اپنی خطا اور اپنے جرم سے آگاہ ہیں ۔اس لئے انہیں کو معاف کر دیجئے۔ بادشاہ نے ایاز کی درخواست قبول کی اور سب کو معاف کر دیا۔