عرب سردار عمر بن عبداللہ اپنے گھر سے نکلے کہ اپنے نخلستان اور کیتھوں میں کام کرنے والے غلاموں اور مزدوروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور انھیں مناسب ہدایات دیں۔ لیکن راستے میں ان کی ملاقات ایک حبشی غلام سے ہوئی جو کسی جاگیر دار کے باغ میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اور اس کے سامنے ایک کتا پاؤں پھیلائے ہوئے بیٹھا تھا۔
وہ جب بھی کوئی لقمہ اپنے منہ میں ڈالتا تو ساتھ ہی ایک لقمہ کتے کے آگے بھی پھینک دیتا اور کتا وہ لقمہ کھا لیتا اس طرح کرتے کرتے ان کا دسترخوان خالی ہو گیا۔
اے نوجوان دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں تیرے لیے کتنی دفعہ کھانا آتا ہے؟
غلام نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ۔
عمر بن عبداللہ نے پوچھا کہ تو رات کو کیا کھاتا ہے؟ اس نے کہا کہ دن کے وقت جو کھنا آتا ہے وہ کافی ہوتا ہے اس میں سے بچا کر رات کے لیے رکھ دیتا ہوں۔
لیکن آج تو تم نے آدھا کھانا کتے کو کھلا دیا ہے، آج رات کو کیا کھاؤ گے ؟
غلام نے کہا کہ کوئی بات نہیں رات کو میں صبر کر لوں گا لیکن یہ بے چارا کتا جو روٹی کی امید لے کر یہاں آ کر بیٹھ گیا تھا تو میری غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ یہ بیٹھ کر مجھے دیکھتا رہے اور میں خود اکیلے ہی کھا لوں۔
حبشی غلام کے یہ الفاظ سن کر سردار عمر بن عبداللہ کے دل پر گہرا اثر ہوا کہ یہ غلام بھی کیا خوب انسان ہے جو ایک حیوان کے سامنے بھی اکیلا کھانے سے شرم محسوس کر رہا ہے ورنہ کتنے سارے انسان ایسے ہیں جو بھوکے انسانوں کے سامنے بیٹھ کر عمدہ عمدہ کھانے کھاتے رہتے ہیں۔ انسان تو دور کی بات ہےوہ اس وقت تک کسی کوے یا کتے کو ہڈی نہیں ڈالتے جب تک خود شکم سیر نہ ہو لیں۔
سردار کے دل میں یہ بات آئی کی کسی غلام کو آزاد کروانا نہایت ثواب کا کام ہے کیوں نہ میں اس غلام کو آزاد کروا دوں۔ شاید میری یہی نیکی اللہ تعالیٰ کو پسند آ جائے اور وہ میری بخشش کر دے۔ اسی خیال سے سردار نے غلام سے اس باغ کے مالک کے بارے میں دریافت کیا۔
غلام نے بتایا کہ باغ کا مالک بنی عاصم قبیلے کا فلاں شخص ہے اور وہ فلاں بستی میں رہائش پذیر ہے ۔ عمر بن عبداللہ اپنی ذاتی مصروفیات کو چھوڑ کر لوگوں سے پوچھتے ہوئے اس بستی میں جا پہنچے جہاں اس باغ کا مالک رہتا تھا۔ عمر بن عبداللہ نے باغ کے مالک سے جا کر پوچھا کیا آپ اس غلام کو فروخت کرنا چاہتے ہیں جو آپ کے باغ میں کام کرتا ہے؟
باغ کے مالک نے جواب میں کہا کہ جی ہاں اگر آپ خریدنا چاہتے ہیں تو۔ سردار نے کہا یقیناً میں خریدنا چاہتا ہوں اور باغ کے بارے میں کیا خیال ہے اسے بھی فروخت کرنا چاہتے ہیں ؟
باغ کے مالک نے کہا کہ اگر مناسب قیمت ملے گی تو فروخت کر دوں گا۔
عمر بن عبداللہ اس دور کے ایک بہت بڑے سخی انسان تھے آپ نے مطلوبہ رقم ادا کی اور باغ اور غلام دونوں کو خرید لیا۔ آپ بڑی خوشی سےواپس آئے اور آتے ہی غلام کو خوشخبری سنائی کہ اے غلام خوش ہو جاؤ آج اللہ نے تمہیں اس شخص کی غلامی سے آزاد کر دیا ہے۔
غلام نے نہایت خوشی سے کہا پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے آزاد کروایا اس کے بعد آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے اللہ کی رضا کی خاطر آزاد کروایا۔ عمر بن عبداللہ نے ساتھ ہی غلام کو یہ خوشخبری بھی سنائی کہ یہ باغ بھی اللہ کی رضا کی خاطر میں تجھے تحفے میں دیتا ہوں۔
اس پر آزاد کردہ غلام نے کہا اللہ کا شکر ہے۔ آپ پھر گواہ ہو جائیں کہ میں نے یہ باغ مدینہ منورہ کے فقراء کو ہدیہ کر دیا تا کہ وہ اس کی آمدن سے گزارا کرتے رہیں کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔
یہ سن کر عمر بن عبداللہ نے کہا!
افسوس ہے تجھ پر اب تو کھائے پیئے گا کہاں سے کیونکہ آج کے بعد تو تیرا سابقہ آقا کھانا نہیں بیجھے گا۔ اس پر وہ کہنے لگا اللہ مالک ہے وہی رازق ہے جس کی خوشنودی کی خاطر آپ نے مجھے آزاد کیا ہے۔ وہ مجھے بھوکا نہیں رہنے دے گا۔ کیا میں صدقہ کر کے اپنے مالک کا شکریہ ادا نہ کروں جس نے آپ کو میری طرف بیجھا اور آپ نے مجھے آزاد کرا دیا۔