ایک شخص تیز رفتار گھوڑے پر سوار اسے سر پٹ دوڑاتے ہوئے مکہ معظمہ کی طرف رواں دواں تھا۔ بال گرد وغبار سے اٹے ہوئے تھے۔ آنکھیں اداس تھیں۔ چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے کسی قافلے کی تلاش ہے اور وہ جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے۔ ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے چلا جا رہا تھا کہ چند راہ گیر نظر آئے۔
ان سے اس شخص نے کسی قافلے کے بارے میں ان سے دریافت کیا۔ ان کے بتانے پر اس شخص نے اپنا گھوڑا اس سمت میں دوڑانا شروع کر دیا ۔ کافی دور جا کر اسے کچھ مدہم شکلیں دکھائی دیں۔ قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ وہی قافلہ ہے جس کی تلاش میں وہ میلوں کا سفر طے کر کے آ رہا ہے۔ اس قافلے کو دیکھ کر اس کا مرجھایا ہوا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور اس کا بے چین دل خوشی سے لبریز ہو گیا۔
قافلہ تیز رفتاری سے چلا جا رہا تھا۔ اس کے گھوڑے کی برق رفتاری اسے قافلے کے قریب پہنچا رہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ قافلے کے پاس جا پہنچا۔ مطلوبہ شخص کو سامنے پا کر اس سے مخاطب ہو کر پوچھا کیا احمد بن طبیب سے آپ نے کپڑا خریدا تھا؟ جی ہاں اس نے تجسس بھری نگاہوں سے اس اجنبی کی طرف دیکھ کر کہا۔ دراصل بات یہ ہے کہ میرے ملازم نے جب کپڑا بیچ کر پیسے مجھے دیے تو میں نے پوچھا کہ کپڑا کسے بیچا ہے؟
اس نے بتایا کہ ایک مسافر کو۔ پھر میں نے اس سے پوچھا "کیا اسے کپڑے کا عیب بتایا تھا؟"تو میرے ملازم احمد نے مجھے بتایا کہ وہ تو مجھے یاد ہی نہیں رہا تھا۔ یہ سن کر مجھے بہت زیدہ پریشانی ہوئی، میں نے اسے برا بھلا کہا۔ احمد کا یہ کہنا تھا کہ " میں کیا کر سکتا ہوں، جو کچھ ہوا اسے بھل جائیے آئندہ احتیاط کروں گا۔"لیکن مجھے تسلی نہیں ہوئی میں نے اسے آپ کو تلاش کرنے کا کہا۔
بڑی مشکل سے آپ کے ٹھکانے کا علم ہوا لیکن اس وقت آپ لوگ حاجیوں کے قافلے کے ساتھ روانہ ہو چکے تھے۔میں نے ایک تیز رفتار گھوڑا کرایے پر لیا اور آخرکار ڈھونڈتے ڈھونڈتے آپ تک پہنچ آیا ہوں تا کہ آپ کو بتا سکوں کہ کپڑے میں ایک نقص ہے۔مسافر کبھی کپڑے کو دیکھتا اور کبھی میلوں دور سے آنے والے تاجر کو جس نے محض ایک نقص بتانے کے اتنی تکلیف اٹھائی تھی۔ وہ بیت دیر تک خاموش رہا۔ پھر کہنے لگا۔ کیا وہ دینار جو میں نے آپ کے ملازم کو دیے تھے آپ کے پاس ہیں۔
تاجر نے جواب دیا ہاں یہ لیں۔
مسافر نے وہ دینار لیے اور دور پھینک دیے اور دوسرے نکال کر دے دیئے۔ عظیم تاجر نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ آپ نے یہ دینار کیوں پھینک دئیے ہیں؟مسافر نے جواب دیا کہ وہ کھوٹے تھے۔ میں ایک غیر مسلم ہوں لیکن آپ کی راست گوئی اور دیانتداری دیکھ کر میرے ضمیر نے اجازت نہ دی کہ آپ کے ساتھ دھوکہ اور فریب کروں۔ جبکہ آپ نے صرف کپڑے کا چھوٹا سا نقص بتانے کے لیے اتنی مشقت اٹھائی۔اس عظیم تاجر کا نام خریف تھا۔ ان کے بیٹے ابن خریف کی زبانی ان کی ایمانداری کا یہ واقعہ تاریخ کے اوراق کی زینت بنا۔ یہ ایمان افروز واقعہ اپنے اندر نہ صرف تاجروں بلکہ ہر مسلمان کے لیے کئی اخلاقی سبق سموئے ہوئے ہے۔