غزوہ بدر حق اور باطل کے درمیان ہونے والا پہلا معرکہ
یہ غزوہ 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پیش آیا تھا۔ کفار مکہ کے لشکر کی قیادت ابو جہل کر رہا تھا جو فوجی ساز سامان اور اسلحہ سے لیس ایک ہزار کا جنگی لشکر لے کر میدان بدر کی طرف روانہ ہوا۔ اسلامی لشکر تین سو تیرہ مجاہدین پر مشتمل تھا، جو سواریوں اور اسلحہ کی شدید کمی کے باوجود جذبہ ایمانی سے سر شار تھا۔ اس غزوہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی۔ قرآن مجید میں غزوہ بدر کو یوم الفرقان کہا گیا ہے۔ غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتے بھیج کر مسلمانوں کی مدد فرمائی۔
غزوہ بدر |
ذیل میں غزوہ بدر کے محرکات اور پیش آنے والے واقعات کا جامع انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔
غزوہ بدر کی وجہ تسمیہ
” بدر” مدینہ منورہ سے تقریباً اسّی میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا نام ہے جہاں زمانۂ جاہلیت میں سالانہ میلہ لگتا تھا۔ یہاں ایک کنواں بھی تھا جس کے مالک کا نام ” بدر ” تھا اسی کے نام پر اس جگہ کا نام ” بدر ” رکھ دیا گیا۔ اسی مقام پر جنگ ِ بدر کا وہ عظیم معرکہ ہوا جس میں کفار ِ قریش اور مسلمانوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم الشان فتح مبین نصیب ہوئی جس کے بعد اسلام کی عزت و اقبال کا پرچم اتنا سر بلند ہوگیا کہ کفار قریش کی عظمت و شوکت بالکل ہی خاک میں مل گئی۔ اﷲ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام ” یومُ الفرقان ” رکھا۔ قرآن کی سورۂ انفال میں تفصیل کے ساتھ اور دوسری سورتوں میں اجمالاً بار بار اس معرکہ کا ذکر فرمایا اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح مبین کے بارے اپنا احسان جتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں
"اور یقینا اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جبکہ تم لوگ کمزور اور بے سر و سامان تھے تو تم لوگ ﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم لوگ شکر گزار ہو جاؤ"۔
مسلمانوں کی بے سر و سامانی
جنگ بدر میں مسلمان ایک اونٹ پر تین تین سوار ہوتے تھے جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باری آتی تو آپ کے دونوں ساتھی آپ سے کہتے
کہ آپ سوار ہو جائیں۔ ہم آپ کی باری بھی پیدل چلیں گے ۔ آپ فرماتے تم دونوں چلنے میں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں اور مجھے بھی تمھاری طرح اجر کی ضرورت ہے ؟ بدر کے روز جنگ کے گھمسان کے وقت مشرکین کے تین جوانوں ، اور لیڈروں نے باہر نکل کر مقابلے کی دعوت دی تو تین انصار ان کے مقابلہ میں نکلے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند نہ فرمایا کہ مسلمانوں اور مشرکوں
کے درمیان ہونے والی پہلی جنگ انصار میں ہو۔ آپ نے چاہا کہ جنگ آپ کی قوم اور آپ کے علم زادوں کے درمیان ہو۔ آپ نے فرمایا یہ اے بنی ہاشم ! اٹھو اور
اپنے اس حق کے لیے جنگ کرو جس کے ساتھ اللہ نے تمھارے نبی کو بھیجا ہے جبکہ وہ اپنے باطل کے ساتھ تمھارے پاس نور الہی کو بجھانے کے لیے آگئے ہیں۔
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں اپنے اصحاب کے لیے شجاعت اور اقدام کی شاندار مثالیں پیش کیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں " بدر کے روز جنگ کے وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ سب لوگوں سے زیادہ سخت جنگ کرتے تھے اور کوئی شخص آپ سے بڑھ کر مشترکین کے زیادہ قریب نہ تھا
پس آپ ان کے زخمی کے پاس سے گزرے اور ان کے منتظم کو طلب کیا۔
جنگ کے بعد رسول کریم صل اللہ علیہ سلم نے غنیمت ان مسلمانوں کے سپرد کر دی جو بدر میں حاضر ہوئے تھے اور آپ نے مسلمانوں کے ساتھ اپنا حصہ لیا۔
آپ کے اور کسی دوسرے مسلمان کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ آپ نے راحت و آرام کو تر جیح نہ دی بلکہ آپ نے اپنے جانباز صحابہ کے آگے آگے بہادروں کی
طرح جنگ کی اور نہ ہی اپنے اقرباء کو راحت و آرام میں ترجیح دی بلکہ انھیں مقابلہ بازی میں مقدم کیا اور جب مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگئی تو آپ کی غنیمت کا حق کسی دوسرے مسلمان سے زائد نہ تھا ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعمال میں ۔
غزوہ بدر |
جنگ بدر کے اسباب و محرکات
جنگ ِ بدر کا اصلی سبب تو “عمرو بن الحضرمی” کے قتل سے کفار قریش میں پھیلا ہوا زبردست اشتعال تھا جس سے ہر کافر کی زبان پر یہی ایک نعرہ تھا کہ ” خون کا بدلہ خو ن لے کر رہیں گے۔”
اسی دوران اچانک سے یہ صورت پیش آگئی کہ قریش کا وہ قافلہ جس کی تلاش میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ” ذی العشیرہ ” تک تشریف لے گئے تھے مگر وہ قافلہ ہاتھ نہیں آیا تھا اور پھر مدینہ میں خبر ملی کہ اب وہی قافلہ ملک شام سے لوٹ کر مکہ جانے والا ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس قافلہ میں ابو سفیان بن حرب ، مخرمہ بن نوفل ، عمرو بن العاص وغیرہ کل ملا کر تیس یا چالیس آدمی ہیں اور کفار قریش کا مال تجارت جو اس قافلہ میں ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ کفار قریش کی ٹولیاں لوٹ مار کی نیت سے مدینہ کے اطراف میں برابر گشت لگاتی رہتی ہیں اور ” کرز بن جابر فہری ” مدینہ کی چراگاہوں تک آکر غارت گری اور ڈاکہ زنی کر گیا ہے لہٰذا کیوں نہ ہم بھی کفار قریش کے اس قافلہ پر حملہ کر کے اس کو لوٹ لیں تاکہ کفار قریش کی شامی تجارت بند ہو جائے اور وہ مجبور ہو کر ہم سے صلح کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سن کر انصار و مہاجرین اس کے لیے تیار ہوگئے۔
مدینہ سے روانگی
چنانچہ ۱۲ رمضان ۲ ھ کو بڑی جلدی میں صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل پڑے، جو جس حال میں تھا اسی حال میں روانہ ہو گیا۔ اس لشکر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ زیادہ ہتھیار تھے نہ فوجی راشن کی کوئی بڑی مقدار تھی کیونکہ کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ اس سفر میں کوئی بڑی جنگ ہوگی۔
مگر جب مکہ میں یہ خبر پھیلی کہ مسلمان مسلح ہو کر قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے مدینہ سے چل پڑے ہیں تو مکہ میں ایک جوش پھیل گیا اور ایک دم کفار قریش کی فوج کا بہت بڑا لشکر مسلمانوں پر حملہ کر نے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع فرما کر صورتِ حال سے آگاہ کیا اور صاف صاف فرما دیا کہ ممکن ہے کہ اس سفر میں کفار قریش کے قافلہ سے ملاقات ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ کے لشکر سے جنگ کی نوبت آ جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق اور دوسرے مہاجرین نے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم انصار کا منہ دیکھ رہے تھے کیونکہ انصار نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے اور یہاں مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔
انصار میں سے قبیلۂ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرۂ انور دیکھ کر بول اٹھے کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے ؟ خدا کی قسم ! ہم وہ جاں نثار ہیں کہ اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں اسی طرح انصار کے ایک اور معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا رسول ﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ انصار کے ان دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔
مدینہ سے ایک میل دور چل کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کا جائزہ لیا، جو لوگ کم عمر تھے ان کو واپس کر دینے کا حکم دیا۔
ننھا مجاہد
مگر انہی بچوں میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ جب ان سے واپس ہونے کو کہا گیا تو وہ مچل گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور کسی طرح واپس ہونے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری دیکھ کر رحمت عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب نازک متاثر ہو گیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اس ننھے سپاہی کے گلے میں بھی ایک تلوار حمائل کر دی مدینہ سے روانہ ہونے کے وقت نمازوں کے لئے حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو آپ نے مسجد نبوی کا امام مقرر فرما دیا تھا لیکن جب آپ مقام ” روحا ” میں پہنچے تو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے کچھ خطرہ محسوس فرمایا اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر فرما کر ان کو مدینہ واپس جانے کا حکم دیا اور حضرت عاصم بن عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کے چڑھائی والے گاؤں پر نگرانی رکھنے کا حکم صادر فرمایا۔
ان انتظامات کے بعد حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم “بدر” کی جانب چل پڑے جدھر سے کفار مکہ کے آنے کی خبر تھی۔ اب کل فوج کی تعداد تین سو تیرہ تھی جن میں ساٹھ مہاجراور باقی انصار تھے۔ منزل بہ منزل سفر فرماتے ہوئے جب آپ مقام “صفرا” میں پہنچے تو دو آدمیوں کو جاسوسی کے لئے روانہ فرمایا تا کہ وہ قافلہ کا پتہ چلائیں کہ وہ کدھر ہے؟ اور کہاں تک پہنچا ہے ؟
ادھر کفار قریش کے جاسوس بھی اپنا کام بہت مستعدی سے کر رہے تھے۔ جب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے تو ابو سفیان کو اس کی خبر مل گئی۔ اس نے فوراً ہی “ضمضم بن عمرو غفاری” کو مکہ بھیجا کہ وہ قریش کو اس کی خبر کر دے تا کہ وہ اپنے قافلہ کی حفاظت کا انتظام کریں اور خود راستہ بدل کر قافلہ کو سمندر کی جانب لے کر روانہ ہو گیا۔ ابو سفیان کا قاصد ضمضم بن عمرو غفاری جب مکہ پہنچا تو اس وقت کے دستور کے مطابق کہ جب کوئی خوفناک خبر سنانی ہوتی تو خبر سنانے والا اپنے کپڑے پھاڑ کراور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہوکر چلا چلا کر خبر سنایا کرتا تھا۔ ضمضم بن عمرو غفاری نے اپنا کرتا پھاڑ ڈالا اور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہو کر زور زور سے چلانے لگا کہ اے اہل مکہ ! تمہارا سارا مال تجارت ابو سفیان کے قافلہ میں ہے اور مسلمانوں نے اس قافلہ کا راستہ روک کر قافلہ کو لوٹ لینے کا عزم کر لیا ہے لہٰذا جلدی کرو اور بہت جلد اپنے اس قافلہ کو بچانے کے لئے ہتھیار لے کر دوڑ پڑو۔
کفار قریش کا جوش
جب مکہ میں یہ خوفناک خبر پہنچی تو اس قدر ہل چل مچ گئی کہ مکہ کا سارا امن و سکون غارت ہو گیا، تمام قبائل قریش اپنے گھروں سے نکل پڑے، سرداران مکہ میں سے صرف ابولہب اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں نکلا، اس کے سوا تمام روساء قریش پوری طرح مسلح ہو کر نکل پڑے اور چونکہ مقام نخلہ کا واقعہ بالکل ہی تازہ تھا جس میں عمرو بن الحضرمی مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اور اس کے قافلہ کو مسلمانوں نے لوٹ لیا تھا اس لئے کفار قریش جوش انتقام میں آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ ایک ہزار کا لشکر جرار جس کا ہر سپاہی پوری طرح مسلح، دوہرے ہتھیار، فوج کی خوراک کا یہ انتظام تھا کہ قریش کے مالدار لوگ یعنی عباس بن عبدالمطلب، عتبہ بن ربیعہ، حارث بن عامر، نضر بن الحارث، ابوجہل، اُمیہ وغیرہ باری باری سے روزانہ دس دس اونٹ ذبح کرتے تھے اور پورے لشکر کو کھلاتے تھے عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے بڑا رئیس اعظم تھا اس پورے لشکر کا سپہ سالار تھا۔
ابو سفیان کا بچ نکلنا
ابو سفیان جب عام راستہ سے مڑ کر ساحل سمندر کے راستہ پر چل پڑا اور خطرہ کے مقامات سے بہت دور پہنچ گیا اور اس کو اپنی حفاظت کا پورا پورا اطمینان ہوگیا تو اس نے قریش کو ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعہ خط بھیج دیا کہ تم لوگ اپنے مال اور آدمیوں کو بچانے کے لئے اپنے گھروں سے ہتھیار لے کر نکل پڑے تھے اب تم لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ کیونکہ ہم لوگ مسلمانوں کی یلغار اور لوٹ مار سے بچ گئے ہیں اور جان و مال کی سلامتی کے ساتھ ہم مکہ پہنچ رہے ہیں۔
کفار میں اختلاف
ابو سفیان کا یہ خط کفار مکہ کو اس وقت ملا جب وہ مقام ” جحفہ ” میں تھے۔ خط پڑھ کر قبیلۂ بنو زہرہ اور قبیلۂ بنو عدی کے سرداروں نے کہا کہ اب مسلمانوں سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لہٰذا ہم لوگوں کو واپس لوٹ جانا چاہیے۔ یہ سن کر ابوجہل بگڑ گیا اور کہنے لگا کہ ہم خدا کی قسم ! اسی شان کے ساتھ بدر تک جائیں گے، وہاں اونٹ ذبح کریں گے اور خوب کھائیں گے، کھلائیں گے، شراب پئیں گے، ناچ رنگ کی محفلیں جمائیں گے تا کہ تمام قبائل عرب پر ہماری عظمت اور شوکت کا سکہ بیٹھ جائے اور وہ ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں۔ کفار قریش نے ابوجہل کی رائے پر عمل کیا لیکن بنو زہرہ اور بنو عدی کے دونوں قبائل واپس لوٹ گئے۔ ان دونوں قبیلوں کے سوا باقی کفار قریش کے تمام قبائل جنگ بدر میں شامل ہوئے۔
کفار قریش بدر میں
کفار قریش چونکہ مسلمانوں سے پہلے بدر میں پہنچ گئے تھے اس لئے مناسب جگہوں پر ان لوگوں نے اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب بدر کے قریب پہنچے تو شام کے وقت حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کو بدر کی طرف بھیجا تاکہ یہ لوگ کفار قریش کے بارے میں خبر لائیں۔ ان حضرات نے قریش کے دو غلاموں کو پکڑ لیا جو لشکر کفار کے لئے پانی بھرنے پر مقرر تھے۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں غلاموں سے دریافت فرمایا کہ بتاؤ اس قریشی فوج میں قریش کے سرداروں میں سے کون کون ہے ؟ تو دونوں غلاموں نے بتایا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو البختری، حکیم بن حزام، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر، نضر بن الحارث، زمعہ بن الاسود، ابوجہل بن ہشام، اُمیہ بن خلف، سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدود، عباس بن عبدالمطلب وغیرہ سب اس لشکر میں موجود ہیں۔ یہ فہرست سن کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ مسلمانو ! سن لو ! مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے۔
حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب بدر میں نزول فرمایا تو ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا کہ جہاں نہ کوئی کنواں تھا نہ کوئی چشمہ اور وہاں کی زمین اتنی ریتلی تھی کہ گھوڑوں کے پاؤں زمین میں دھنستے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے پڑاؤ کے لئے جس جگہ کو منتخب فرمایا ہے یہ وحی کی رو سے ہے یا فوجی تدبیر ہے ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ہے۔ حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ پھر میری رائے میں جنگی تدابیر کی رو سے بہتر یہ ہے کہ ہم کچھ آگے بڑھ کر پانی کے چشموں پر قبضہ کر لیں تا کہ کفار جن کنوؤں پر قابض ہیں وہ بیکار ہو جائیں کیونکہ انہی چشموں سے ان کے کنوؤں میں پانی جاتا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی رائے کو پسند فرمایا اور اسی پر عمل کیا گیا۔ خدا کی شان کہ بارش بھی ہو گئی جس سے میدان کی گرد اور ریت جم گئی جس پر مسلمانوں کے لئے چلنا پھرنا آسان ہو گیا اور کفار کی زمین پر کیچڑ ہو گئی جس سے ان کو چلنے پھرنے میں دشواری ہو گئی اور مسلمانوں نے بارش کا پانی روک کر جا بجا حوض بنالئے تا کہ یہ پانی غسل اور وضو کے کام آئے۔ اسی احسان کو خداوند عالم نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا کہ
وَ يُنَزِّلُ عَلَيْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ (انفال)
اور خدا نے آسمان سے پانی برسا دیا تا کہ وہ تم لوگوں کو پاک کرے۔
سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شب بیداری
۱۷ رمضان ۲ ھ جمعہ کی رات تھی تمام فوج تو آرام و چین کی نیند سو رہی تھی مگر ایک سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات تھی جو ساری رات خداوند عالم سے لو لگائے دعا میں مصروف تھی۔ صبح نمودار ہوئی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لئے بیدار فرمایا پھر نماز کے بعد قرآن کی آیات جہاد سنا کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز وعظ فرمایا کہ مجاہدین اسلام کی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ جوش و خروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور لوگ میدان جنگ کے لئے تیار ہونے لگے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی
رات ہی میں چند جاں نثاروں کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میدان جنگ کا معائنہ فرمایا، اس وقت دست مبارک میں ایک چھڑی تھی۔ آپ اُسی چھڑی سے زمین پر لکیر بناتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس جگہ جس کافر کی قتل گاہ بتائی تھی اس کافر کی لاش ٹھیک اسی جگہ پائی گئی ان میں سے کسی ایک نے لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔
لڑائی ٹلتے ٹلتے پھر ٹھن گئی
کفار قریش لڑنے کے لئے بے تاب تھے مگر ان لوگوں میں کچھ سلجھے دل و دماغ کے لوگ بھی تھے جو خون ریزی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حکیم بن حزام جو بعد میں مسلمان ہو گئے بہت ہی سنجیدہ اور نرم خو تھے۔ انہوں نے اپنے لشکر کے سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ سے کہا کہ آخر اس خون ریزی سے کیا فائدہ ؟ میں آپ کو ایک نہایت ہی مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ قریش کا جو کچھ مطالبہ ہے وہ عمرو بن الحضرمی کا خون ہے اور وہ آپ کا حلیف ہے آپ اس کا خون بہا ادا کر دیجیے، اس طرح یہ لڑائی ٹل جائے گی اور آج کا دن آپ کی تاریخ زندگی میں آپ کی نیک نامی کی یادگار بن جائے گا کہ آپ کے تدبر سے ایک بہت ہی خوفناک اور خون ریز لڑائی ٹل گئی۔ عتبہ بذات خود بہت ہی مدبر اور نیک نفس آدمی تھا۔ اس نے بخوشی اس مخلصانہ مشورہ کو قبول کر لیا مگر اس معاملہ میں ابوجہل کی منظوری بھی ضروری تھی۔ چنانچہ حکیم بن حزام جب عتبہ بن ربیعہ کا یہ پیغام لے کر ابوجہل کے پاس گئے تو ابوجہل کی رگِ جہالت بھڑک اُٹھی اور اُس نے ایک خون کھولا دینے والا طعنہ مارا اور کہا کہ ہاں ہاں ! میں خوب سمجھتا ہوں کہ عتبہ کی ہمت نے جواب دے دیا چونکہ اس کا بیٹا حذیفہ مسلمان ہو کر اسلامی لشکر کے ساتھ آیا ہے اس لئے وہ جنگ سے جی چراتا ہے تا کہ اس کے بیٹے پر آنچ نہ آئے۔
پھر ابوجہل نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ عمرو بن الحضرمی مقتول کے بھائی عامر بن الحضرمی کو بلا کر کہا کہ دیکھو تمہارے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کی ساری اسکیم تہس نہس ہوئی جا رہی ہے کیونکہ ہمارے لشکر کا سپہ سالار عتبہ بزدلی ظاہر کر رہا ہے۔ یہ سنتے ہی عامر بن الحضرمی نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اپنے سر پر دھول ڈالتے ہوئے “ وا عمراہ وا عمراہ ” کا نعرہ مارنا شروع کر دیا۔ اس کارروائی نے کفار قریش کی تمام فوج میں آگ لگا دی اور سارا لشکر “ خون کا بدلہ خون ” کے نعروں سے گونجنے لگا اور ہر سپاہی جوش میں آپے سے باہر ہو کر جنگ کے لئے بے تاب و بے قرار ہو گیا۔ عتبہ نے جب ابوجہل کا طعنہ سنا تو وہ بھی غصہ میں بھر گیا اور کہا کہ ابوجہل سے کہہ دو کہ میدان جنگ بتائے گا کہ بزدل کون ہے ؟ یہ کہہ کر لوہے کی ٹوپی طلب کی مگر اس کا سر اتنا بڑا تھا کہ کوئی ٹوپی اس کے سر پر ٹھیک نہیں بیٹھی تو مجبوراً اس نے اپنے سر پر کپڑا لپیٹا اور ہتھیار پہن کر جنگ کے لئے تیار ہو گیا۔
۱۷ رمضان ۲ ھ جمعہ کے دن حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام کو صف بندی کا حکم دیا۔ دست مبارک میں ایک چھڑی تھی اس کے اشارہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صفیں درست فرما رہے تھے کہ کوئی شخص آگے پیچھے نہ رہنے پائے اور یہ بھی حکم فرما دیا کہ بجز ذکر الٰہی کے کوئی شخص کسی قسم کا کوئی شور وغل نہ مچائے۔ عین ایسے وقت میں کہ جنگ کا نقارہ بجنے والا ہی ہے دو ایسے واقعات در پیش ہو گئے جو نہایت ہی عبرت خیز اور بہت زیادہ نصیحت آموز ہیں۔
شکم مبارک کا بوسہ
حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی چھڑی کے اشارہ سے صفیں سیدھی فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ حضرت سواد انصاری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا پیٹ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا۔ آپ نے اپنی چھڑی سے ان کے پیٹ پر ایک کونچا دے کر فرمایا کہ اِسْتَوِ یَا سَوَادُ (اے سواد سیدھے کھڑے ہو جاؤ) حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول ﷲ ! آپ نے میرے شکم پر چھڑی ماری ہے مجھے آپ سے اس کا قصاص (بدلہ) لینا ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا پیراہن شریف اٹھا کر فرمایا کہ اے سواد ! لو میرا شکم حاضر ہے تم اس پر چھڑی مار کر مجھ سے اپنا قصاص لے لو۔ حضرت سواد رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے دوڑ کر آپ کے شکم مبارک کو چوم لیا اور پھر نہایت ہی والہانہ انداز میں انتہائی گرم جوشی کے ساتھ آپ کے جسم اقدس سے لپٹ گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے سواد ! تم نے ایسا کیوں کیا ؟ عرض کیا کہ یا رسول ﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں اس وقت جنگ کی صف میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر کھڑا ہوں شاید موت کا وقت آ گیا ہو، اس وقت میرے دل میں اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش ! مرتے وقت میرا بدن آپ کے جسم اطہر سے چھو جائے۔ یہ سن کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سواد رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے اس جذبۂ محبت کی قدر فرماتے ہوئے ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائی اور حضرت سواد رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں معذرت کرتے ہوئے اپنا قصاص معاف کر دیااور تمام صحابۂ کرام حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس عاشقانہ ادا کو حیرت سے دیکھتے ہوئے ان کا منہ تکتے رہ گئے۔
عہد کی پابندی
اتفاق سے حضرت حذیفہ بن الیمان اور حضرت حسیل رضی اﷲ تعالیٰ عنہما یہ دونوں صحابی کہیں سے آ رہے تھے راستہ میں کفار نے ان دونوں کو روکا کہ تم دونوں بدر کے میدان میں حضرت محمد (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی مدد کرنے کے لئے جا رہے ہو۔ ان دونوں نے انکار کیا اور جنگ میں شریک نہ ہونے کا عہد کیا چنانچہ کفار نے ان دونوں کو چھوڑ دیا۔ جب یہ دونوں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ بیان کیا تو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کو لڑائی کی صفوں سے الگ کر دیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ہم کو صرف خدا کی مدد درکار ہے۔
دونوں لشکر آمنے سامنے
اب وہ وقت ہے کہ میدان بدر میں حق و باطل کی دونوں صفیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ قرآن اعلان کر رہا ہے کہ
قَدْکَانَ لَکُمْ اٰيَةٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَاط فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰي کَافِرَةٌ (آل عمران)
جو لوگ باہم لڑے ان میں تمہارے لئے عبرت کا نشان ہے ایک خدا کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا منکر خدا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجاہدین اسلام کی صف بندی سے فارغ ہو کر مجاہدین کی قرارداد کے مطابق اپنے اس چھپر میں تشریف لے گئے جس کو صحابہ کرام نے آپ کی نشست کے لئے بنا رکھا تھا۔ اب اس چھپر کی حفاظت کا سوال بے حد اہم تھا کیونکہ کفار قریش کے حملوں کا اصل نشانہ حضور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اس چھپر کا پہرہ دے لیکن اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے یار غار حضرت صدیق با وقار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی قسمت میں یہ سعادت لکھی تھی کہ وہ ننگی تلوار لے کر اس جھونپڑی کے پاس ڈٹے رہے اور حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی چند انصاریوں کے ساتھ اس چھپر کے گرد پہرہ دیتے رہے۔
دعائے نبوی
حضور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس نازک گھڑی میں جناب باری سے لو لگائے گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہو کر ہاتھ پھیلائے یہ دعا مانگ رہے تھے کہ ” اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے آج اسے پورا فرما دے۔ ” آپ پر اس قدر رقت اور محویت طاری تھی کہ جوشِ گریہ میں چادر مبارک دوش انور سے گر گر پڑتی تھی مگر آپ کو خبر نہیں ہوتی تھی، کبھی آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس طرح دعا مانگتے کہ ” الٰہی ! اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے"۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے یار غار تھے۔ آپ کو اس طرح بے قرار دیکھ کر ان کے دل کا سکون و قرار جاتا رہا اور ان پر رقت طاری ہو گئی اور انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈال دی اور آپ کا دست مبارک تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور ! اب بس کیجیے خدا ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔
اپنے یار غار صدیق جاں نثار کی بات مان کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا ختم کر دی اور آپ کی زبان مبارک پر اس آیت کا ورد جاری ہو گیا کہ
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ
عنقریب (کفار کی) فوج کو شکست دے دی جائیگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔
آپ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے جس میں فتح مبین کی بشارت کی طرف اشارہ تھا۔
لڑائی کی شروعات
جنگ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ سب سے پہلے عامر بن الحضرمی جو اپنے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کے لئے بے قرار تھا جنگ کے لئے آگے بڑھا اس کے مقابلہ کے لئے حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت مہجع رضی ﷲ تعالیٰ عنہ میدان میں نکلے اور لڑتے ہوئے شہادت سے سر فراز ہو گئے۔ پھر حضرت حارثہ بن سراقہ انصاری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ حوض سے پانی پی رہے تھے کہ ناگہاں ان کو کفار کا ایک تیر لگا اور وہ شہید ہو گئے۔
حضرت عمیر کا شوقِ شہادت
حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب جوش جہاد کا وعظ فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ مسلمانو !اس جنت کی طرف بڑھے چلو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے تو حضرت عمیر بن الحمام انصاری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول ﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا جنت کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ” ہاں ” یہ سن کر حضرت عمیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا : ” واہ وا ” آپ نے دریافت فرمایا کہ کیوں اے عمیر ! تم نے ” واہ وا ” کس لئے کہا ؟ عرض کیا کہ یا رسول ﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فقط اس امید پر کہ میں بھی جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے عمیر! تو بے شک جنتی ہے۔ حضرت عمیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ بشارت سنی تو مارے خوشی کے کھجوریں پھینک کر کھڑے ہو گئے اور ایک دم کفار کے لشکر پر تلوار لے کر ٹوٹ پڑے اور جانبازی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
کفار کے سپہ سالار کا قتل
کفار کا سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ اپنے سینہ پر شتر مرغ کا پر لگائے ہوئے اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کو ساتھ لے کر غصہ میں بھرا ہوا اپنی صف سے نکل کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا۔ اسلامی صفوں میں سے حضرت عوف و حضرت معاذ و عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم مقابلہ کو نکلے۔ عتبہ نے ان لوگوں کا نام و نسب پوچھا، جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ انصاری ہیں تو عتبہ نے کہا کہ ہم کو تم لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔ پھر عتبہ نے چلا کر کہا اے محمد ( صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں ہیں اشراف قریش کو ہم سے لڑنے کے لئے میدان میں بھیجئے۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ و حضرت علی و حضرت عبیدہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کو حکم دیا کہ آپ لوگ ان تینوں کے مقابلہ کے لئے نکلیں۔
چنانچہ یہ تینوں بہادران اسلام میدان میں نکلے۔ چونکہ یہ تینوں حضرات سر پر خود پہنے ہوئے تھے جس سے ان کے چہرے چھپ گئے تھے اس لئے عتبہ نے ان حضرات کو نہیں پہچانا اور پوچھا کہ تم کون لوگ ہو ؟ جب ان تینوں نے اپنے اپنے نام و نسب بتائے تو عتبہ نے کہا کہ ’’ ہاں اب ہمارا جوڑ ہے ” جب ان لوگوں میں جنگ شروع ہوئی تو حضرت حمزہ و حضرت علی و حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اپنی ایمانی شجاعت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ بدر کی زمین دہل گئی اور کفار کے دل تھرا گئے اور ان کی جنگ کا انجام یہ ہوا کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عتبہ کا مقابلہ کیا، دونوں انتہائی بہادری کے ساتھ لڑتے رہے مگر آخرکار حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی تلوار کے وار سے مار مار کر عتبہ کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔ ولید نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جنگ کی، دونوں نے ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر قاتلانہ حملہ کیا اور خوب لڑے لیکن اسد اﷲ الغالب کی ذوالفقار نے ولید کو مار گرایا اور وہ ذلت کے ساتھ قتل ہو گیا۔ مگر عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس طرح زخمی کر دیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر زمین پر بیٹھ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جھپٹے اور آگے بڑھ کر شیبہ کو قتل کر دیا اور حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنے کاندھے پر اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے، ان کی پنڈلی ٹوٹ کر چور چور ہو گئی تھی اور نلی کا گودابہہ رہا تھا، اس حالت میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا میں شہادت سے محروم رہا ؟ ارشاد فرمایا کہ نہیں ہرگز نہیں ! بلکہ تم شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ حضرت عبیدہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول ﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آج میرے اور آپ کے چچا ابو طالب زندہ ہوتے تو وہ مان لیتے کہ ان کے اس شعر کا مصداق میں ہوں کہ
وَنُسْلِمُهٗ حَتّٰی نُصَرَّعَ حَوْلَهٗ وَنَذْهَلُ عَنْ اَبْنَائِنَا وَ الْحَلَائِلِ
یعنی ہم محمد صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس وقت دشمنوں کے حوالہ کریں گے جب ہم ان کے گرد لڑ لڑ کر پچھاڑ دیئے جائیں گے اور ہم اپنے بیٹوں اور بیویوں کو بھول جائیں گے۔
حضرت زبیر کی تاریخی برچھی
اس کے بعد سعید بن العاص کا بیٹا ” عبیدہ ” سر سے پاؤں تک لوہے کے لباس اور ہتھیاروں سے چھپا ہوا صف سے باہر نکلا اور یہ کہہ کر اسلامی لشکر کو للکارنے لگا کہ ” میں ابو کرش ہوں ” اس کی یہ مغرورانہ للکار سن کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن العوام رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جوش میں بھرے ہوئے اپنی برچھی لے کر مقابلہ کے لئے نکلے مگر یہ دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں ہے جو لوہے سے چھپا ہوا نہ ہو۔ حضرت زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے تاک کر اس کی آنکھ میں اس زور سے برچھی ماری کہ وہ زمین پر گرا اور مر گیا۔ برچھی اس کی آنکھ کو چھیدتی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی میں چبھ گئی تھی۔ حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر پوری طاقت سے کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن اس کا سر مڑ کر خم ہو گیا۔ یہ برچھی ایک تاریخی یادگار بن کر برسوں تبرک بنی رہی۔ حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے یہ برچھی طلب فرما لی اور اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا پھر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس منتقل ہوتی رہی۔ پھر حضرت زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبدﷲ بن زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کے پاس آئی یہاں تک کہ ۷۳ ھ میں جب بنو اُمیہ کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کر دیا تو یہ برچھی بنو اُمیہ کے قبضہ میں چلی گئی پھر اس کے بعد لاپتہ ہو گئی۔
ابوجہل ذلت کے ساتھ مارا گیا
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں صف میں کھڑا تھا اور میرے دائیں بائیں دو نو عمر لڑکے کھڑے تھے۔ ایک نے چپکے سے پوچھا کہ چچا جان ! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں ؟ میں نے اس سے کہا کہ کیوں بھتیجے ! تم کو ابوجہل سے کیا کام ہے ؟ اس نے کہا کہ چچا جان ! میں نے خدا سے یہ عہد کیا ہے کہ میں ابوجہل کو جہاں دیکھ لوں گا یا تو اس کو قتل کر دوں گا یا خود لڑتا ہوا مارا جاؤں گا کیونکہ وہ ﷲ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہت ہی بڑا دشمن ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرت سے اس نوجوان کا منہ تاک رہا تھا کہ دوسرے نوجوان نے بھی مجھ سے یہی کہا اتنے میں ابوجہل تلوار گھماتا ہوا سامنے آ گیا اور میں نے اشارہ سے بتا دیا کہ ابوجہل یہی ہے، بس پھر کیا تھا یہ دونوں لڑکے تلواریں لے کر اس پر اس طرح جھپٹے جس طرح باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ دونوں نے اپنی تلواروں سے مار مار کر ابوجہل کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔ یہ دونوں لڑکے حضرت معوذ اور حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم تھے جو ” عفراء ” کے بیٹے تھے۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے اپنے باپ کے قاتل حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کر دیا اور پیچھے سے ان کے بائیں شانہ پر تلوار ماری جس سے ان کا بازو کٹ گیا لیکن تھوڑا سا چمڑا باقی رہ گیا اور ہاتھ لٹکنے لگا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عکرمہ کا پیچھا کیا اور دور تک دوڑایا مگر عکرمہ بھاگ کر بچ نکلا۔ حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حالت میں بھی لڑتے رہے لیکن کٹے ہوئے ہاتھ کے لٹکنے سے زحمت ہو رہی تھی تو انہوں نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو پاؤں سے دبا کر اس زور سے کھینچا کہ تسمہ الگ ہو گیا اور پھر وہ آزاد ہو کر ایک ہاتھ سے لڑتے رہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ابوجہل کے پاس سے گزرے، اس وقت ابوجہل میں کچھ کچھ زندگی کی رمق باقی تھی۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کی گردن کو اپنے پاؤں سے روند کر فرمایا کہ ” تو ہی ابوجہل ہے ! بتا آج تجھے اﷲ نے کیسا رسوا کیا۔ ” ابوجہل نے اس حالت میں بھی گھمنڈ کے ساتھ یہ کہا کہ تمہارے لئے یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے میرا قتل ہو جانا اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ایک آدمی کو اس کی قوم نے قتل کر دیا۔ ہاں ! مجھے اس کا افسوس ہے کہ کاش ! مجھے کسانوں کے سوا کوئی دوسرا شخص قتل کرتا۔ حضرت معوذ اور حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم چونکہ یہ دونوں انصاری تھے اور انصار کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور قبیلۂ قریش کے لوگ کسانوں کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اس لئے ابوجہل نے کسانوں کے ہاتھ سے قتل ہونے کو اپنے لئے قابل افسوس بتایا۔
جنگ ختم ہو جانے کے بعد حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر جب ابوجہل کی لاش کے پاس سے گزرے تو لاش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ابوجہل اس زمانے کا ” فرعون ” ہے۔ پھر عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے ابوجہل کا سر کاٹ کر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دیا۔
ابو البختری کا قتل
حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ کچھ لوگ کفار کے لشکر میں ایسے بھی ہیں جن کو کفار مکہ دباؤ ڈال کر لائے ہیں ایسے لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ان لوگوں کے نام بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بتا دیئے تھے۔ انہی لوگوں میں سے ابو البختری بھی تھا جو اپنی خوشی سے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ کفار قریش اس پر دباؤ ڈال کر زبردستی کرکے لائے تھے۔ عین جنگ کی حالت میں حضرت مجذر بن ذیاد رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی نظر ابو البختری پر پڑی جو اپنے ایک گہرے دوست جنادہ بن ملیحہ کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھا۔ حضرت مجذر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو البختری ! چونکہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تیرے قتل سے منع فرمایا ہے اس لئے میں تجھ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ ابو البختری نے کہا کہ میرے ساتھی جنادہ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ تو حضرت مجذر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس کو ہم زندہ نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ سن کر ابو البختری طیش میں آ گیا اور کہا کہ میں عرب کی عورتوں کا یہ طعنہ سننا پسند نہیں کر سکتا کہ ابو البختری نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ساتھی کو تنہا چھوڑ دیا۔ یہ کہہ کر ابو البختری نے رجز کا یہ شعر پڑھا کہ
َلَنْ يُّسْلِمَ ابْنُ حُرَّةٍ زَمِیْلَهٗ حَتّٰي يَمُوْتَ اَوْ يَرٰی سَبِيْلَهٗ
ایک شریف زادہ اپنے ساتھی کو کبھی ہر گز نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ مر نہ جائے یا اپنا راستہ نہ دیکھ لے۔
اُمیّہ کی ہلاکت
اُمیہ بن خلف بہت ہی بڑا دشمن رسول تھا۔ جنگ بدر میں جب کفر و اسلام کے دونوں لشکر گتھم گتھا ہو گئے تو اُمیہ اپنے پرانے تعلقات کی بنا پر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے چمٹ گیا کہ میری جان بچائیے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو رحم آ گیا اور آپ نے چاہا کہ اُمیہ بچ کر نکل بھاگے مگر حضرت بلال رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اُمیہ کو دیکھ لیا۔ حضرت بلال رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جب اُمیہ کے غلام تھے تو اُمیہ نے ان کو بہت زیادہ ستایا تھا اس لئے جوشِ انتقام میں حضرت بلال رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے انصار کو پکارا، انصاری لوگ دفعۃً ٹوٹ پڑے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اُمیہ سے کہا کہ تم زمین پر لیٹ جاؤ وہ لیٹ گیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اس کو بچانے کے لئے اس کے اوپر لیٹ کر اس کو چھپانے لگے لیکن حضرت بلال اور انصار رضی ﷲ تعالیٰ عنہم نے ان کی ٹانگوں کے اندر ہاتھ ڈال کر اور بغل سے تلوار گھونپ گھونپ کر اس کو قتل کر دیا۔
فرشتوں کی فوج
جنگ بدر میں ﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کا لشکر اتار دیا تھا۔ پہلے ایک ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار ہو گئے اس کے بعد پانچ ہزار ہو گئے۔ (قرآن سوره آل عمران و انفال )
جب خوب گھمسان کا رن پڑا تو فرشتے کسی کو نظر نہیں آتے تھے مگر ان کی حرب و ضرب کے اثرات صاف نظر آتے تھے۔ بعض کافروں کی ناک اور منہ پر کوڑوں کی مار کا نشان پایا جاتا تھا، کہیں بغیر تلوار مارے سر کٹ کر گرتا نظر آتا تھا، یہ آسمان سے آنے والے فرشتوں کی فوج کے کارنامے تھے۔
کفار نے ہتھیار ڈال دیئے
عتبہ، شیبہ، ابوجہل وغیرہ کفار قریش کے سرداروں کی ہلاکت سے کفار مکہ کی کمر ٹوٹ گئی اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ ہتھیار ڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
اس جنگ میں کفار کے ستر آدمی قتل اور ستر آدمی گرفتار ہوئے۔ باقی اپنا سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے اس جنگ میں کفارِ مکہ کو ایسی زبردست شکست ہوئی کہ ان کی عسکری طاقت ہی فنا ہو گئی۔ کفار قریش کے بڑے بڑے نامور سردار جو بہادری اور فن سپہ گری میں یکتائے روزگار تھے ایک ایک کرکے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ ان ناموروں میں عتبہ، شیبہ، ابوجہل، ابو البختری، زمعہ، عاص بن ہشام، اُمیہ بن خلف، منبہ بن الحجاج، عقبہ بن ابی معیط، نضر بن الحارث وغیرہ قریش کے سرتاج تھے یہ سب مارے گئے۔
شہدائے بدر
جنگ ِ بدر میں کل چودہ مسلمان شہادت سے سرفراز ہوئے جن میں سے چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے۔ شہداء مہاجرین کے نام یہ ہیں: (۱) حضرت عبیدہ بن الحارث (۲) حضرت عمیر بن ابی وقاص (۳) حضرت ذوالشمالین عمیر بن عبد عمرو (۴) حضرت عاقل بن ابی بکیر (۵) حضرت مہجع (۶) حضرت صفوان بن بیضاء اور انصار کے ناموں کی فہرست یہ ہے:(۷) حضرت سعد بن خیثمہ (۸) حضرت مبشر بن عبدالمنذر (۹) حضرت حارثہ بن سراقہ (۱۰) حضرت معوذ بن عفراء (۱۱) حضرت عمیر بن حمام (۱۲) حضرت رافع بن معلی (۱۳) حضرت عوف بن عفراء (۱۴) حضرت یزید بن حارث۔ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین
ان شہداء بدر میں سے تیرہ حضرات تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبیدہ بن حارث رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے چونکہ بدر سے واپسی پر منزل ” صفراء ” میں وفات پائی اس لئے ان کی قبر شریف منزل ” صفراء ” میں ہے۔
بدر کا گڑھا
حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہمیشہ یہ طرز عمل رہا کہ جہاں کبھی کوئی لاش نظر آتی تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کو دفن کروا دیتے تھے لیکن جنگ ِ بدر میں قتل ہونے والے کفار چونکہ تعداد میں بہت زیادہ تھے، سب کو الگ الگ دفن کرنا ایک دشوار کام تھا اس لئے تمام لاشوں کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بدر کے ایک گڑھے میں ڈال دینے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے تمام لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر گڑھے میں ڈال دیا۔ اُمیہ بن خلف کی لاش پھول گئی تھی، صحابۂ کرام نے اس کو گھسیٹنا چاہا تو اس کے اعضاء الگ الگ ہونے لگے اس لئے اس کی لاش وہیں مٹی میں دبا دی گئی
کفار کی لاشوں سے خطاب
جب کفار کی لاشیں بدر کے گڑھے میں ڈال دی گئیں تو حضور سرور عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر مقتولین کا نام لے کر اس طرح پکارا کہ اے عتبہ بن ربیعہ ! اے شیبہ بن ربیعہ ! اے فلاں ! اے فلاں ! کیا تم لوگوں نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ؟ ہم نے تو اپنے رب کے وعدہ کو بالکل ٹھیک ٹھیک سچ پایا۔ حضرت عمر فاروق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کفار کی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں توان کو بڑا تعجب ہوا۔ چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ ان بے روح کے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں؟ یہ سن کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! قسم خدا کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ تم (زندہ لوگ) میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن سکتے لیکن اتنی بات ہے کہ یہ مردے جواب نہیں دے سکتے۔
ضروری تنبیہ
حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب کفار کی مردہ لاشوں کو پکارا تو پھر خدا کے برگزیدہ بندوں یعنی ولیوں، شہیدوں اور نبیوں کو ان کی وفات کے بعد پکارنا بھلا کیوں نہ جائز و درست ہوگا ؟ اسی لئے تو حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب مدینہ کے قبرستان میں تشریف لے جاتے تو قبروں کی طرف اپنا رخِ انور کرکے یوں فرماتے کہ
اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ يَا اَهْلَ الْقُبُوْرِ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَنَا وَ لَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَ نَحْنُ بِالْاَثَرِ(مشکوٰة باب زیارة القبور ص۱۵۴)
یعنی ” اے قبر والو ! تم پر سلام ہو خدا ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم لوگ ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔ ” اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی یہی حکم دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے کہ جب تم لوگ قبروں کی زیارت کے لئے جاؤ تو
اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ اَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَآءَ اللّٰهُ بِکُمْ لَلاَحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللّٰهَ لَنَا وَ لَکُمُ الْعَافِيَةَ(مشکوٰة باب زيارة القبور ص۱۵۴)
ان حدیثوں سے ظاہر ہے کہ مردے زندوں کا سلام و کلام سنتے ہیں ورنہ ظاہر ہے کہ جو لوگ سنتے ہی نہیں ان کو سلام کرنے سے کیا حاصل ؟
مدینہ کو واپسی
فتح کے بعد تین دن تک حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ” بدر ” میں قیام فرمایا پھر تمام اموال غنیمت اور کفار قیدیوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب ” وادی صفرا ” میں پہنچے تو اموالِ غنیمت کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرمایا۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں جنگ ِ بدر کے موقع پر بیمار تھیں اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صاحبزادی کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں رہنے کا حکم دے دیا تھا اس لئے وہ جنگ بدر میں شامل نہ ہو سکے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے ان کو مجاہدین بدر کے برابر ہی حصہ دیا اور ان کے برابر ہی اجر و ثواب کی بشارت بھی دی اسی لئے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی اصحاب بدر کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔
مجاہدین بدر کا استقبال
حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فتح کے بعد حضرت زید بن حارثہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو فتح مبین کی خوشخبری سنانے کے لئے مدینہ بھیج دیا تھا۔ چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ یہ خوشخبری لے کر جب مدینہ پہنچے تو تمام اہل مدینہ جوش مسرت کے ساتھ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کے انتظار میں بے قرار رہنے لگے اور جب تشریف آوری کی خبر پہنچی تو اہل مدینہ نے آگے بڑھ کر مقام ” روحاء ” میں آپ کا پر جوش استقبال کیا۔
غزوہ بدر کے جنگی قیدیوں کے بارے میں مشورہ
معرکہ بدر کے بعد رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے قیدیوں کے انجام کے متعلق مشورہ طلب کیا تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے فلاں قریبی کو میرے حوالے کر دیں، تاکہ میں اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کر دوں اور اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے کوئی محبت نہیں ہے۔ لیکن باہم مشورے سے طے پایا کہ فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا جائے چنانچہ بدر کے قیدیوں کا فدیہ چار ہزار کے لگ بھگ تھا اور جس کے پاس کچھ نہ تھا اس کا فدیہ یہ تھا کہ وہ انصار کے بچوں کو لکھنا سکھائے ۔