تاجر کی دانائی
ایک تاجر ٹوپیاں بیچنے کا کاروبار کیا کرتا تھا وہ ہر روز ٹوپیاں لے کر شہر جاتا اور ساری ٹوپیاں بیچ کر شام کو واپس آ جاتا۔ ایک دن وہ معمول کی طرح ٹوپیاں ایک ٹوکری میں ڈال کر شہر کی طرف چل پڑا گرمیوں کے دن تھے چلتے چلتے تاجر کو بہت زیادہ تھکاوٹ ہو گئی۔
تاجر نے سوچا کہ وہ تھوڑی دیر آرام کر لے اور پھر آگے کا سفر شروع کرے۔ راستے میں ایک جنگل تھا تاجر نے ایک درخت کی چھاوں میں آرام کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے اپنی ٹوپیاں اتار کر رکھیں اور خود زمین پر لیٹ گیا۔ وہ اتنا تھکا ہوا تھا کہ اس پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ کافی دیر سونے کے بعد وہ جب اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی ساری کی ساری ٹوپیاں غائب ہیں۔
تاجر کی دانائی |
اس نے جب ادھر ادھر دیکھا تو اسے کوئی بھی نظر نہ آیا۔ کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد جب اسے کچھ سراغ نہ ملا تو وہ پریشان ہو کر نیچے بیٹھ گیا۔ اچانک جب اس کی نظر درخت پر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ درخت پر بنرد اس کی ٹوپیاں پہنے ہوئے بیٹھے ہیں۔ تب تاجر کو اندازہ ہو گیا کہ اس کی ٹوپیاں کدھر گئیں۔
اس نے شروع میں بندروں کے آگے ہاتھ جوڑے اور بہت منت سماجت کی کہ اس کی ٹوپیاں واپس کر دیں لیکن جیسے جیسے وہ ہاتھ جوڑتا بندر بھی اس کی نقل اتارتے ہوئے ہاتھ جوڑنے لگ جاتے۔ اس نے ہر طریقہ آزما لیا لیکن بندر نہ مانے۔ بندر اس کی ہر بات کی نقل اتارتے۔ آخر کار تاجر کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اس نے اپنے سر سے ٹوپی اتاری اور اوپر ہوا میں اچھال دی۔ درخت پر بیٹھے بندروں نے بھی اس کی نقل اتارتے ہوئے اپنی اپنی ٹوپیاں ہوا میں اچھال دیں۔
اور یوں ساری ٹوپیاں زمین پر آ گریں۔ تاجر نے جلدی جلدی تمام ٹوپیاں اکٹھی کیں اور وہاں سے چلتا بنا۔