سلطان محمود غز نوی اور ڈاکوؤں کا گروہ
سلطان محمود غز نوی اکثر رات کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کے حال احوال سے باخبر رہتے اور ان کی تکالیف دور کرتے تھے۔
ایک رات حسب عادت رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے بادشاہ سلامت بھیس بدل کر محل سے نکلے۔ گشت کرتے ہوئے ایک ویرانے سے گزرے تو وہاں چند آدمی بیٹھے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔سلطان بھی ان کے قریب جا بیٹھے۔
سلام دعا کے بعد پوچھا تم لوگ کون ہو اور رات گئے یہاں کیا کر رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا ہم چور ہیں اور چوری کی منصوبہ بندی کے لیے اکھٹے ہوئے ہوئے ہیں۔ اب یہ بتاؤ تم کون ہو؟ سلطان نے کہا:’’بس میں بھی تمہی میں سے ہوں‘‘۔ یہ سن کر وہ خوش ہوئے اور ان کو اپنے گروہ میں خوش آمدید کہا۔
وہ آپس میں اپنے اپنے ہنر اور کمال کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ پہلے نے کہا: میرے کانوں کو یہ کمال حاصل ہے کہ رات کو جب کتا بھونکتا
ہے تو میں سمجھ جا تا ہوں کہ وہ کیا کہ رہا ہے۔
سب نے سن کر کہا! یہ تو بڑے کمال کی بات ہے۔
دوسرا کہنے لگا اے مال و زر کے پجاریو! میری آنکھوں میں خوبی ہے کہ رات کو کیسا ہی کیوں نہ گھپ اندھیرا ہو میں جس کسی کو اس اندھیرے میں ایک مرتبہ دیکھ لوں دن کی روشنی میں دیکھتے ہی پہچان لیتا ہوں۔ تیسرے نے کہا: میرے بازو میں اتنی قوت ہے کہ مضبوط سے مضبوط دیوار میں نقب لگا لیتا ہوں۔ چوتھے نے کہا: میں سونگھ کر بتا دیتا ہوں کہ خزانہ کس جگہ دبا ہوا ہے۔
پانچواں کہنے لگا: میرے پنجے میں وہ زور ہے کہ اونچی سے اونچی جگہ پر کمند پھینک سکتا ہوں۔ پھر انہوں نے سلطان کی طرف دیکھ کر کہا: ہاں بھائی اب تو بھی بتا تجھ میں کیا کمال ہے؟ سلطان نے جواب دیا دوستو میرا کیا پوچھتے ہو۔ اللہ کی مہربانی سے میری داڑھی میں ایک خاص وصف ہے۔ وہ مجرموں کو قید سے رہا کرا دیتی ہے یا پھر جن کو قتل کی سزا ہو جائے اس وقت اگر میں داڑھی ہلا دوں تو انھیں باعزت رہا کر دیا جا تا ہے۔
ان عقل کے اندھوں نے یہ سن کر خوشی سے نعرہ لگایا اور کہا کہ تیرا کمال تو سب سے بڑا ہے آج سے تو ہمارا سردار ہے۔
اب ہمیں کسی پریشانی کا خوف نہیں۔ اس کے بعد چوری کا پروگرام طے کیا اور پھر چل پڑے۔ بادشاہ کے محل کی جانب نکلے کتے کے بھونکنے کی آواز آئی جو چور کتوں کی بولی سمجھنے کا دعویٰ کرتا تھا اچانک سہم کر دبی زبان میں بولا غضب ہو گیا یہ کتا کہہ رہا ہے کہ بادشاہ تمہارے دائیں بائیں ہی موجود ہے۔ یہ سن کر دوسرے چور ہنس پڑے اور بولے تجھے کیا ہو گیا ہے۔ بادشاہ کا یہاں کیا کام وہ اس وقت محل
میں اپنے آرام دہ بستر پر خراٹے لے رہا ہو گا۔ اتنے میں دوسرے چور نے کہا: دوستو
شاہی خزانہ قریب ہی آ گیا ہے اور بس اب تم اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرو۔ کمند پھینکنے والے نے محل کی چھت پر کمند پھینکی پھر وہ سب آہستہ آہستہ کمند کے ذریعے محل کی چھت پر جا پہنچے نقب زن نے نقب لگائی اور اس کمرے میں ساتھیوں کو لے گیا جہاں شاہی خزانہ موجود تھا۔
جس کے ہاتھ جو لگا جی بھر کر سمیٹا۔ اشرفیاں، ہیرے، جواہر اور سونے چاندی کے برتن وہاں سے نکال کر سارا مال ایک محفوظ جگہ پر چھپا دیا اور خود اپنے خفیہ مقام میں جا چھپے ۔
سلطان موقع پا کر وہاں سے کھسک آیا دوسرے دن بادشاہ نے سپاہیوں کو اس جگہ کا پتہ دے کر چوروں کی گرفتاری کا حکم دیا۔ سپاہی بھاگے بھاگے گئے اور سب چوروں کو فوراً گرفتار کر لیا۔ جب انہیں بادشاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو سزا کے خوف سے چہرے زرد اور جسم خشک تنکے کی طرح کانپ رہے تھے۔
ان میں سے وہ آدمی جو رات کی تاریکی میں کسی کو دیکھ کر دن میں پہچان لینے کا دعویٰ کرتا تھا۔ اس کی نظر جو نہی سلطان کے چہرے پر پڑی تو اس نے ہاتھ باندھ کر عرض کی ہم سب تو اپنا اپنا کمال دکھا چکے ہم میں سے کسی کا فن ہماری جان بچانے کے کام نہ آیا۔
بے شک ہمارا ہر کمال بدبختی اور آفت ہی ڈھاتا رہا۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاتھ اور پاؤں بندھ گئے ۔جلاد ہماری گردنیں اڑا دینے کے لیے کھڑا ہے۔
ہمارے ہنر ہمیں موت کے پنجے سے نہیں چھڑا سکتے ۔اے ہمارے رات کے ساتھی اب وقت آ گیا ہے کہ آپ اپنے فن کا مظاہرہ کر لیں ۔ اب آپ اپنی داڑھی ہلائیں تا کہ ہماری جان بچ جائے۔ سلطان محمود کواس کی باتیں سن کر رحم آ گیا۔ اس نے اپنی گردن ہلا کر حکم دیا کہ ان کو رہا کر دیا جائے ۔