سانچ کو آنچ نہیں
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چودہ سالہ نوجوان لڑکا تعلیم کی غرض سے بغداد کے لیے روانہ ہوا۔ اس زمانے میں سفر زیادہ تر پیدل ہوا کرتا تھا۔ راستے کی تکالیف سے بچنے اور حفاظت کی غرض سے مسافر قافلوں کی صورت میں سفر طے کیا کرتے تھے۔ گھر سے روانہ ہوتے ہوئے لڑکے کی ماں نے اسے خرچ کے طور پر چالیس اشرفیاں دیں۔ رقم چوری ہو جانے سے بچنے کے لیے لڑکے کی ماں نے اشرفیوں کو اس کی قمیض کے اندر چھپا کر سی دیا۔ سفر کے دوران قافلے کو ایک جگہ پر رات ہو گئی آرام کی غرض سے قافلے نے پڑاو ڈالا۔ اتفاق سے ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کر دیا اور مسافروں سے سارا سامان لوٹنے لگے۔ ڈاکوؤں کے ہاتھ جو کچھ لگا انہوں نے اٹھا لیا۔
سچ کی برکت |
لوٹ مار کے دوران ایک ڈاکو لڑکے کے پاس آیا اور پوچھا کہ لڑکے تمھارے پاس کیا ہے؟ لڑکے نے جواب دیا میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں۔
لڑکے کا جواب سن کر ڈاکو کو یقین نہ آیا اور وہ اسے مذاق سمجھ کر آگے نکل گیا، تھوڑی دیر بعد ایک اور ڈاکو آیا اور اس نے بھی لڑکے سے یہی سوال پوچھا یقین تو اسے بھی نہ آیا لیکن پھر بھی وہ تسلی کے لیے اسے اپنے سردار کے پاس لے گیا۔ ڈاکوؤں کے سردار نے جب لڑکے سے پوچھا کہ سچ سچ بتا کہ تیرے پاس کیا ہے؟ تو لڑکے نے اسے بھی یہی جواب دیا کہ اس کے پاس چالیس اشرفیاں ہیں۔ رقم چونکہ زیادہ تھی تو سردار نے لڑکے سے کہا کہ یہ اشرفیاں کہاں ہیں؟ لڑکے نے بتایا، کہ میری ماں نے میری قمیض کے اندر سی رکھی ہیں۔ لڑکے کی نشاندہی کے بعد جب قمیض کو کھولا گیا تو واقعی چالیس اشرفیاں نکلیں۔ یہ رقم دیکھ کر تمام ڈاکو حیران رہ گئے۔ رقم سے بھی زیادہ حیرانگی انہیں لڑکے کی سچائی پر ہوے جا رہی تھی۔
ڈاکوؤں کے سردار سے رہا نہ گیا تو اس نے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ہم ڈاکو ہیں ہمیں جو کچھ ملتا ہے لوٹ لیتے ہیں۔ تو نے ہمیں سچ کیوں بتایا؟ ہم اپنی ساری کوشش کے باوجود بھی اس جگہ سے اشرفیاں نہ نکال پاتے۔ تم نے سچ بول کر خود یہ رقم کیوں ہمارے حوالے کی؟ اس پر اس لڑکے نے ڈاکوؤں کو بتایا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بغداد جا رہا ہے اور گھر سے روانہ ہوتے ہوئے اس کی ماں نے اسے نصیحت کی تھی کہ "بیٹا کبھی جھوٹ نہ بولنا چاہے تمہیں کتنا ہی نقصان نہ اٹھانا پڑے"۔
سچ کی برکت |
ڈاکوؤں کا سردار یہ بات سنتے ہی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور ندامت کے مارے یہ سوچنے لگا کہ لڑکے کو اپنی ماں کے حکم کی کتنی فکر ہے اور میں ہوں کہ اتنے عرصے سے اپنے رب کے حکم کی نا فرمانی کر رہا ہوں۔ اس بات کا اس کے دل پر گہرا اثر ہوا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اس نے اپنے ساتھیوں کو لوٹا ہو سامان فوراً واپس کرنے کو کہا اور ساتھ ہی آئندہ کے لیے برے کاموں سے توبہ کرلی۔ سردار کی یہ حالت دیکھ کر باقی ڈاکوؤں نے کہا برے کاموں میں تو ہمارا رہنما تھا اب اچھائی میں بھی ہم تیرے پیچھے ہیں۔ یہ کہتے ہی سب نے توبہ کر لی۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ لڑکا کون تھا؟ جس کی سچائی نے نہ صرف لوٹا ہوا سامان واپس کروا دیا بلکہ ڈاکوؤں کی زندگی بھی بدل کر رکھ دی۔ بڑا ہو کر یہ لڑکا بہت بڑی بزرگ شخصیت بنا جن کو آج ہم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتے ہیں آپ ایک با عمل عالم اور ولی اللہ تھے۔
آپ کے اس واقعے سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہے کہ چاہے حالات جیسے بھی ہوں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی سب کو سچائی پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔