مرض عشق | حکایات رومی
بادشاہ اپنے خواص کے ساتھ شاہی سواری پر بیٹھا بازار حسن سے گزر رہا تھا کہ ایک کنیز پر اس کی نظر پڑی وہ عورت کیا تھی کہ کسی شاہکار کا تراشہ ہوا مجسمہ تھا۔ جس کا حسن قیامت خیز تھا۔ بادشاہ جب واپس لوٹا تو دل بے قرار کو کسی گھڑی چین نہیں آرہا تھا۔ وہ اس مجسمہ حسن پر سو جان سے قربان ہو چکا تھا۔ بادشاہ نے منہ مانگی قیمت دے کر اسے خرید لیا۔
کنیز کی بیماری
ابھی آنکھوں نے جی بھر کر دیکھا بھی نہ تھا کہ چند دن کے بعد وہ بادشاہ کے دل کی مالک بیمار ہو گئی ۔ مثل صادق ہے۔ گدھا پاس تھا تو پالان نہ تھا پالان ملا تو گدھے کو بھیڑیا لے گیا۔ کوزہ تھا تو پانی نہ تھا پانی ملا تو کوزہ ٹوٹ گیا۔ بادشاہ کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوا۔ علاج کے لئے ہر طرف سے طبیب حضرات آنے لگے۔
ہر ایک کا یہی دعویٰ تھا کہ میں ہی مسیح زماں ہوں۔ جب بیمار کی قضا آتی ہے تو طبیب بھی بے وقوف ہو جاتا ہے۔ اپنی مہارت اور تجربوں پر ناز کرتے ہوئے کہ ہمارے پاس ہر دکھ درد کی تیر بہدف دوا ہے۔ انشاء اللہ نہ کہا جس کی وجہ سے ان کا کوئی علاج کار گر ثابت نہ ہوا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہو گیا۔
مرض کم نہ ہوا
طبیب حضرات اپنے اپنے نسخے آزما چکے چاند سے چہرے کی رونق کم سے کم ہوتی جا رہی تھی ۔ اب بادشاہ کو رجوع الی اللہ کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ فورا ننگے سر اور پاؤں خانہ خدا کی طرف بھاگا سر سجدے میں رکھ کر خوب رویا سجدہ گاہ شاہ کے آنسوؤں سے تر ہو گئی۔
یا اللہ! تو دلوں کے بھید جانتا ہے میں نے طبیبوں پر بھروسہ کرنے میں خطا کی۔ میرا قصور معاف فرما۔ میں کیا عرض کروں۔ تو ہمارے اسرار سے باخبر ہے۔ ہمارا حال اور ان طبیبوں کا عدم توکل اور ترک انشاء اللہ تیرے لطفِ عام کے سامنے کوئی اہمیت نہیں
رکھتا۔ اے ہماری حاجتوں کی پناہ گاہ میری محبوبہ کو شفا عطا فرما۔ جب بادشاہ نے تہہ دل سے نالہ وفریاد کی۔ روتے روتے بادشاہ کو اونگھ آگئی اور قسمت جاگ گئی بشارت ملی کہ کل ایک مسافر تیرے پاس آئے گا اس کے علاج سے کنیز کو شفا ہوگی بادشاہ بڑی بےتابی کے ساتھ نو وارد کی راہ دیکھنے لگا۔۔۔
ایک بزرگ صورت شخص دُور سے ہلال کی طرح ظاہر ہوا جوں جوں نزدیک آتا گیا آفتاب کی طرح اس کی روشنی پھیلتی گئی بادشاہ نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا کلام و طعام سے فارغ ہو کر بادشاہ اس بزرگ طبیب کو محل کے اندر لے گیا۔
طبیب نے مریضہ کے چہرے کی رنگت اور نبض دیکھی بیماری کی علامت اور اسباب کے متعلق غور کیا۔سب کچھ
دیکھ سُن کر دل میں کہا اسے صفر او سودا کے غلبہ کی وجہ سے مرض لاحق نہیں ہوا بلکہ یہ مرضِ عشق
ہے ۔ یہ معلوم کر لینے کے بعد طبیب نے بادشاہ سے کہا میں بیمار سے تخلیہ میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ سب لوگوں کے چلے جانے کے بعد طبیب نے پوچھا اے شاہ بیگم ! یہ تو بتائیں آپ کس علاقے کی رہنے والی ہیں۔ یہ اس لئے کہ ہر علاقے کا طریق علاج مختلف ہوتا ہے۔
آپ اس شہر سے کس طرح جدا ہو ئیں یہ کہہ کر مریضہ کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا۔ کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو اسے نکالنے کے لئے کتنی کاوش کرنا پڑتی ہے۔ پاؤں زانو پر رکھ کر سوئی کے سرے سے کانٹے کا سر معلوم کرتے ہیں۔ جب نہ ملے تو اسے لب سے تر کرتے ہیں جب پاؤں کا کانٹا ایسا دشوار یاب ہے۔ تو دل کا کانٹا معلوم کرنا کیوں کر مشکل نہ ہو۔ کنیز نے اپنی داستان غم بیان کرنا شروع کر دی۔ پہلے اپنی سہیلیوں اور رشتے داروں کے متعلق بتایا ان کے ذکر سے نہ اس کا رنگ بدلا نہ نبض میں تغیر واقع ہوا۔ اسی طرح وہ ہر شہر اور ہر گھر کا ذکر کرتی رہی۔
جہاں جہاں اس کی بود و باش رہی۔ جب کنیز نے سمر قند میں آنے کے متعلق ذکر شروع کیا تو سمرقند کا نام لیتے ہی اس کے دل سے آہ نکلی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
کنیز کی داستان عشق
آنکھوں کی اس رم جھم میں کہنے لگی مجھے وہاں ایک خواجہ زرگر نے خرید لیا۔ اس بیان سے اس
کی نبض دل کی تڑپ کا پتہ دینے اور منہ کی زردی درد فراق کا اظہار کرنے لگی۔ شیخ کامل نے دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ لیا اور کنیز سے یہ راز معلوم کر لیا کہ وہ سمر قند کے اس خواجہ زرگر پر عاشق ہے۔
طبیب نے کنیز کو تسلی دی کہ اطمینان رکھو! تم جلد تندرست ہو جاؤ گی۔ طبیب نے بادشاہ کو بتایا کہ میں نے مرض معلوم کر لیا ہے۔ آپ کسی طریقے سے فلاں زرگر کو سمر قند سے یہاں بلوا لیں۔
بادشاہ نے اپنے دو خاص دانا آدمی سمرقند بھیجے جو اس سنار سے جا کر ملے اور اس کو اطلاع دی کہ بادشاہ تمہاری ہنر مندی کا شہرہ سُن کر بڑا خوش ہوا ہے۔ اس نے تمہارے لئے بیش قیمت خلعت اور مال و زر بھیجا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ تم اس کے پاس آؤ اور اس کے خاص مصاحبوں میں شامل ہو جاؤ۔ بادشاہ کی یہ عنایت دیکھ کر زرگر بہت خوش ہوا۔ اسی وقت اپنا سب کچھ چھوڑ کر ان کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گیا۔
سمرقند کا سنار جب محل میں پہنچا تو بادشاہ نے اُٹھ کر اس کی تعظیم کی اور حکم جاری کیا کہ تم بے فکری کے ساتھ ہمارے پاس رہو بادشاہوں کے لائق سونے کے زیورات اور برتن تیار کرو۔ چنانچہ وہ بڑی خوشی اور دلجمعی کے ساتھ اپنے کام میں لگ گیا۔
بادشاہ نے اس کے کام کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں اس کے صلہ میں تمھیں اپنی خاص کنیز عطا کرتا ہوں۔ چنانچہ وہی کنیز جو اس زرگر کے فراق میں سُوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی۔ اسے دے دی گئی ۔ کنیز جب اپنے دل رُبا کے پاس پہنچی تو اس کا دکھ درد سب جاتا رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چند ماہ میں صحیح سلامت ہوگئی۔ اس کا کھویا ہوا روپ پھر جو بن پر آگیا۔
اب طبیب کامل نے ایسا شربت تیار کیا جسے سنار نے نوش کیا اور وہ پانی میں نمک کی ڈلی کی مانند گھلنے لگا۔ کنیز کے سامنے اس طویل بیماری کے سبب زرگر کا روپ آہستہ آہستہ جاتا رہا۔ آنکھیں اندر کو کھس گئیں چہرے کی سرخی جاتی رہی یہ حالت دیکھ کر کنیز کی محبت بھی رفتہ رفتہ کافور ہوگئی۔ اب وہ کنیز عشق کی بیماری سے شفا پاگئی۔ اس کنیز کی محبت محض صورت پرستی تھی۔ اس لئے صورت کے بگڑنے سے آہستہ آہستہ وہ عشق بھی زائل ہو گیا۔ جو عشق صرف رنگ و روپ کی خاطر ہوتا ہے۔ وہ دراصل عشق نہیں بلکہ فسق ہوتا ہے۔
اس ترکیب سے طبیب نے کنیز کے مرض عشق“ کا علاج کیا اور اسے تندرست کر کے بادشاہ کے دل کو مسرور اور آنکھوں کا نور بنا دیا۔
ظاہری صورت کا عشق آخر کار بدنامی اور بے عزتی کا موجب بنتا ہے۔ معشوق کا رنگ و روغن اس کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔ مور کے لئے اس کے خوبصورت پر ہلاکت آفرین ہیں۔ ہرن کو شکاری مشک کے لئے مارتے ہیں۔ لومڑی کو پوتین کے لئے ہلاک کیا جاتا ہے۔
اے طالب! اس زندہ ( محبوب حقیقی ) کا عشق اختیار کر جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ جو محبت و معرفت کی جانفزا پاک شراب پلانے والا ہے۔ تو مایوسی سے یہ مت کہہ کہ اس محبوب حقیقی تک مجھ جیسے نا لائقوں کی کیسے رسائی ہو سکتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے جو بندہ میری طرف بالشت بھر قریب آتا ہے، میں اس کی طرف گز بھر قریب ہو جاتا ہوں۔ اس کے عشق و محبت کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔
درس حقایت
نیکی ، بدی کے پردے میں پوشیدہ بھی ہو سکتی ہے اور اس سے ہٹ کر بھی ۔ اسلئے نیکی کرتے وقت اصل مقصد منشائے رضائے الہی ہونا چاہئے۔