ایک پانی بھرنے والا ایک تاجر کے لیے کام کرتا تھا۔
وہ ہر روز پہاڑ سے نیچے پیدل چل کر آتا اور پانی بھر کر واپس جاتا۔ پانی بھرنے کے لیے وہ مٹی کی ہڈیوں کا استعمال کرتا جنہیں اس نے ایک ڈنڈے کے سہارے باندھ رکھا تھا۔
اسی ڈنڈے کی مدد سے وہ ان ہنڈیوں کو اپنے کندھے پر اٹھایا کرتا تھا۔ دو ہنڈیوں میں سے ایک ہنڈیا میں ایک سوراخ تھا جس کی وج سے راستے میں چلتے چلتے پانی گرتا جاتا۔ جب وہ گھر پہنچتا تو ٹوٹی ہنڈیا تقریباً خالی ہی ہو جاتی۔
جو ہنڈیا بالکل اچھی حالت میں تھی وہ اپنی حالت پر فخر محسوس کرتی اور ٹوٹی ہنڈیا کو سارے رستے میں طعنے دیتی رہتی۔ ٹوٹی ہنڈیا خود بھی اپنی اس حالت پر بہت پریشان تھی۔ آخر کار تنگ آ کر ایک دن ٹوٹی ہنڈیا نے پانے بھرنے والے سے کہا کہ میں بہت شرمندگی محسوس کر رہی ہوں کہ میں آدھے سے زیادہ پانی راستے میں گرا دیتی ہوں۔ یوں آپ کو بھی زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور مجھے بھی ہر وقت طعنے سننے پڑتے ہیں۔ کیوں نہیں آپ مالک کو کہ کر نئی ہنڈیا لے لیتے اور مجھ سے جان چھڑا لیتے۔ اس طرح آپ کا بھی بھلا ہو جائے گا اور میری بھی روز روز کی تکلیف بھی ایک ہی دن میں ختم ہو جائے گی۔
یہ سن کر پانی بھرنے والے شخص نے اس ٹوٹی ہنڈیا سے کہا کہ تم راستے میں چلتے ہوئے اپنی طرف رنگ برنگے پھولوں کو دیکھنا اور دوسری ہنڈیا کی طرف خشک زمین کو بھی۔
تمہاری اس ٹوٹی حالت کا مجھے شروع دن سے ہی پتہ تھا اسی لیے میں نے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیے تھے۔ میں جب روزانہ پانی لے کر جاتا تو تو جو پانی نیچے گرتا وہ اس سے وہ بیج سیراب ہو جاتے جو کہ کرتے کرتے اب رنگ برنگے پھولوں کو شکل اختیار کر گئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے تمہاری کمزوری کو بجائے کوسنے کے اس کا بھرپور فائدہ لیا۔ یہ سن کر ٹوٹی ہنڈیا کا دل خوش ہوگیا اور ساتھ ہی دوسری ہنڈیا جو اس ہر وقت برا بھلا کہتی رہتی تھی اپنے رویے پر نادم ہوئی۔
نتیجہ: کسی کی ظاہری کمزوری کو دیکھ کر اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہیئے۔