ڈاکٹر لارنس براؤن کے قبول اسلام کا واقعہ

Malik
0

ڈاکٹر لارنس براؤن کے قبول اسلام کا واقعہ 

 Story of Doctor Laurence Brown 

مختصر تعارف 

یہ ایک امریکی ڈاکٹر کے قبول اسلام کا واقعہ ہے۔ ان کا نام لارنس براؤن ہے۔ وہ ایک کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ مگر وہ اپنی کہانی بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ہوش سنبھالنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی عیسائی نہیں رہے، وہ ملحد ہو گئے تھے یعنی وہ کسی خدا کے وجود سے یکسر انکاری تھے ان کے مطابق اس دنیا کا کوئی خالق و مالک نہیں ہے ۔ بلکہ یہ نظام خود بخود اپنے تہیں چل رہا ہے۔

ڈاکٹر لارنس براؤن 


وہ صرف امریکہ کا بہترین ھارٹ اسپیشلسٹ نہیں تھا، بلکہ پورے بر اعظم امریکہ میں شاید اس کے مقابلے کا کوئی ڈاکٹر نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا بھر میں لیکچر دیتا پھرتا تھا ، اس کی ڈیوٹی امریکہ کے بہترین اسپتال میں تھی۔ جہاں رونالڈ ریگن کو گولی لگنے کے بعد فوری طور پہ شفٹ کیا گیا تھا، اس سے اس اسپتال کی اہمیت اور سہولیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر یہی اہم ترین اسپتال اور اس کی سہولیات ایک دن اس کے سامنے بے بس و لاچار سر جھکائے کھڑی تھیں ۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ سارا ہسپتال بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔

معذور بیٹی کی پیدائش 

 یہ سال تھا 1990، سردیوں کے دن تھے جب اس کے گھر  

اس کی دوسری بیٹی حنا کی پیدائش ہوئی۔ بچی کو لیبر روم سے سیدھا آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا۔ کیونکہ وہ ابنارمل پیدا ہوئی تھی ، اس کی ایک آرٹری میں نقص تھا۔ جس کی وجہ سے اس کے بدن کو آکسیجن ملا خون نہیں مل رہا تھا۔ اور وہ سر سے پاؤں کے انگوٹھے تک "Gun Metal Blue" پیدا ہوئی تھی ۔ بقول ڈاکٹر صاحب میں خود ڈاکٹر تھا۔ اور مجھے پتہ تھا کہ میری بچی کے ساتھ کیا مسئلہ ہے ، اس کا بدن مر رہا تھا۔ کیوں کہ اسے آکسیجن ملا خون نہیں مل پا رہا تھا ،

 اس کا علاج یہ تھا کہ اس کی چیر پھاڑ کر کے آرٹری کی گرافٹنگ کر کے اسے تبدیل کیا جائے ، مگر پہلی بات یہ کہ اس آپریشن کی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں تھی ، دوسری بات یہ کہ اگر یہ گرافٹنگ کامیاب بھی ہو جائے تو بھی سال دو سال بعد پھر گرافٹنگ کرنی ہو گی۔ یوں زیادہ سے زیادہ دو سال کی زندگی لے کر میری بیٹی آئی تھی، اور اس وقت اس کی جو حالت تھی اس میں میں بطور باپ تو اس کو چیر پھاڑ نہیں سکتا تھا۔ اس کے لئے ایک نہایت لائق ڈاکٹر کی سربراہی میں ایک ٹیم بنا دی گئی۔ جو اپنا ساز و سامان اکٹھا کرنے میں لگ گئی۔ 


اور ڈاکٹر صاحب آپریشن تھیٹر کے ساتھ ملحق ”کمرہ استغاثہ” یا "Prayer Hall” میں چلے گئے۔ کمرہ فریاد میں کسی مذہب کی کوئی نشانی یا مونو گرام نہیں تھا ۔ نہ کعبہ ، نہ کلیسا، نہ مریم و عیسیٰ کی تصویر، نہ یہود کا ڈیوڈ اسٹار، نہ ہندو کا ترشول ۔ الغرض وہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے بنایا گیا کمرہ تھا۔ جہاں وہ آپریشن کے دوران اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دعا مانگتے تھے، جب تک کہ ان کا مریض آپریشن تھیٹر سے منتقل کیا جاتا ، اس سے قبل ڈاکٹر لارنس کے لئے یہ کمرہ ایک “Psychological Dose" کے سوا کچھ نہیں تھا۔


 مگر آج اس کی اپنی جان پر بن گئی تھی ، بقول ڈاکٹر لارنس ، میں نے آج تک جو چاہا تھا اسے ہر قیمت پر حاصل کر لیا تھا ، چاہے وہ پیسے سے ملے، یا اثر و رسوخ سے ”نہ اور ناممکن" جیسے الفاظ میری ڈکشنری میں ہی نہیں تھے۔ مگر آج میں بے بس ہو گیا تھا۔ نہ تو سائنسی آلات و وسائل کچھ کر سکتے تھے۔ اور نہ ہی میرا پیسہ میری بچی کی جان بچا سکتا تھا۔

ڈاکٹر لارنس براؤن 



میں نے ہاتھ اٹھائے، اور اس نادیدہ ہستی کو پکارا جس کے وجود کا میں آج تک منکر تھا۔ "اے خالق! اگر تُو واقعی موجود ہے۔ تو پھر تُو یہ بھی جانتا ہوگا کہ میں آج تک تیرے وجود کا منکر رہا ، مگر آج میری بیٹی مجھے تیرے در پہ لے آئی ہے ، اگر واقعی تیرا وجود ہے۔ تو پلیز میری مدد فرما ، اسباب نے جواب دے دیا ہے اب میری بچی کو اگر کوئی بچا سکتا ہے۔ تو صرف اس کا بنانے والا ہی بچا سکتا ہے ، وہی اس فالٹ کو درست کر سکتا ہے۔ جس نے یہ بچی تخلیق فرمائی ہے۔ اے خالق! میں صدقِ دل کے ساتھ تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تو میری بچی کا فالٹ درست فرما دے، تو میں سارے مذاہب کو اسٹڈی کر کے ان میں سے تیرے پسندیدہ مذہب کو اختیار کر لوں گا۔ اور ساری زندگی تیرا غلام بن کر رہوں گا ، یہ میرا اور تیرا عہد ہے"


بقول ڈاکٹر صاحب  میں نے صدقِ نیت سے یہ پیمان کیا اور اٹھ کر آپریشن تھیٹر میں آیا ، مجھے زیادہ سے زیادہ 15 منٹ لگے ہوں گے ، مگر جب میں آپریشن روم میں آیا تو وہاں کی بدلی ہوئی فضا کو میں نے ایک لمحے میں محسوس کر لیا ، وہاں افراتفری کی بجائے سکون و اطمینان تھا ، ٹیم کے سربراہ نے سر گھما کر مجھے دیکھا، اور بولا۔

 بچی کے آپریشن کی اب کوئی ضرورت نہیں خون کا دورانیا درست ہو گیا ھے۔ اور اس دورانِ خون کے درست ہونے کی جو سائنٹیفک وجوہات وہ بتا رھا تھا ، میں نے سر اٹھا کر باقی ٹیم ممبران کی طرف دیکھا، میرے سمیت ان میں سے کسی کی آنکھوں یا چہرے پر ان وجوہات پر یقین کا ایک فیصد بھی نہیں تھا، ہمیں معلوم تھا کہ یہ صرف باتیں ہیں ان میں حقیقت نام کو نہیں ، البتہ مجھے پتہ تھا کہ میرا ایگریمنٹ خالق کی طرف سے Endorse کر لیا گیا ہے۔ اور آرٹری کی خرابی اسی خالق نے جھٹ سے درست کر دی ہے ،

 اس سے پہلے میری پہلی بیٹی کی مرتبہ بھی ایک سگنل مجھے خالق کی طرف سے ملا تھا جو مثبت تھا ، اسی وجہ سے میں نے اسے معمولی سمجھا ، میری پہلی بیٹی کرسٹینا نے پیدا ہونے کے بعد اسی دن میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی دونوں ٹانگوں پہ کھڑا ہو کر مجھے حیران کر دیا تھا، ڈاکٹر حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکن ہے ۔ مگر میں نے اس نا ممکن میں خالق کو نہ پہچانا، تو دوسری بیٹی کے ناممکن نے مجھے باندھ کر خالق کے در پہ لا ڈالا ۔


2014 میں میری بیٹی نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ مجھے اپنا معاہدہ بڑی اچھی طرح یاد تھا ، میں نے دنیا کے تمام مذاھب کی کتب کو پڑھنا شروع کیا ، بدھ ازم ، ھندو ازم ، عیسائیت اور یہودیت سمیت تمام کتب بھی پڑھیں۔ اور ان کے علماء سے مذاکرے بھی ہوئے مگر میرے سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔

 اب اسلام میرا آخری آپشن تھا

میں نے قرآن کو پڑھنا شروع کیا اور میرے دل و دماغ کے دریچے کھُلتے چلے گئے ، میں نے عیسائیوں اور یہودیوں سے بار بار سوال کیا کہ یحيٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ وہ تیسرا کون ہے۔ جس کی گواہی تورات بھی دیتی ھے، اور انجیل بھی دیتی ہے ، مگر وہ آئیں بائیں شائیں کرتے تھے ، قرآن نے مجھے جواب دیا کہ وہ تیسری ہستی ﷴ رسول الـلــَّـه ﷺ کی ہی ہے ۔ یوں میں نے دین حق چن لیا۔ اور اسلام کو اپنے دل و دماغ سے قبول کر لیا۔


اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام پر قائم و دائم رکھے اور اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !