سائنس کی روح سے جنات کی حقیقت

Malik
0

 جنات کا سائنسی تجزیہ

(ایک سائنسدان کے قلم سے)

‏جنات اللّٰہ کی مخلوق ہیں یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ کئی اور مزاہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے 

وہ آگ سے پیدا کیے گئے۔



 ان میں شیاطین و نیک صفت دونوں موجود ہیں

 اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ھے 

یہ فیچر جنات کی سائینٹفیک تشریح کے بارے میں ھے ۔ 

کیا وہ ہمارے درمیان موجود ہیں ؟
 اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ھم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟ 

لفظ جن کا ماخذ ھے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔ 

جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟

 اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔

 پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ھے ۔

 اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ‏‏جو (electromagnetic spectrum) 

بنایا ھے اس کے تحت روشنی کی 19 اقسام کی ہیں ۔ 

جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ھے ۔

 میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔ 

اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا ‏میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گی ۔

 اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیئے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔

 اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔

‏روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت

 ultraviolet-vision 

کی ہو گی جو آپ کو انرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔ 

اس کے علاوہ microwave-vision اور

 radio wave-vision 

جیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سپر پاور محسوس ہونے لگتی ھے ۔

کائنات میں پائی جانی والی تمام ‏چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔ 

جس کا آسان الفاظ میں مطلب ھے کہ ھم کل کائنات کا صرف %0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ 

انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ھے اور یہ‏ الٹرا وائلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ھے ۔ 

ہماری دنیا میں ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کا visual-spectrum 

ھم سے مختلف ھے ۔

 سانپ وہ جانور ھے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ھے 

ایسے ھی شہد کی مکھی الٹراوائلٹ میں دیکھ سکتی ھے ۔

 دنیا میں سب سے زیادہ رنگ ‏مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ھے ،

 الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔

 امریکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ھے ۔ 

جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ھے ۔

 درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں ‏دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ھے

 جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائرے تک دیکھ سکتا ھے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ھے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔

‏ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ 

جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللّٰہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ھے جب فرشتوں کو دیکھتا ھے.........

 اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللّٰہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ھے ۔

‏جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ھے ۔ 

پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے 

light-receptors 

ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔ 

اور دوسری چیز fovea جو‏انتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ھے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ھے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں

 اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ھم سے بہتر نہیں ھے لیکن‏ گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ھے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ھے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ھم سے کہیں زیادہ ھے ۔ 

البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ھے اگرچہ دوسرے‏ جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ھے۔

مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی 16 ہرٹز سے لے کر 45000 ہرٹز تک ھے

 اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی 20 ہرٹز سے لے کر 20000 ہرٹز تک ۔ 

اور شاید اسی لیئے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ‏ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں ۔

 ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ھے 

اور یہی وہ فریکوئینسی ھے

 جس میں انسان کا اپنے ذہن پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ھے ۔

 اس کی واضح مثال 

ASMR 

تھراپی ھے

 جس میں 100 ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ھے ۔‏

اس تجزیہ کے شروع میں ، میں نے جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن

 دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں ۔ 

سنہء 1803 میں ڈالٹن نامی سائنسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی‏ اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا ۔

 اس بات کے بعد 100 سال گزرے جب تھامسن نامی سائنسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا ۔

 پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا ،

 صرف 2 سال‏ بعد بوہر نامی سائنسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں

 اور دس سال بعد 1926 میں شورڈنگر نامی سائنسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسام کی انرجی کے بادلوں کو دریافت کیا ۔



جو چیز 200 سال پہلے ایک تھیوری تھی ، آج وہ ایک حقیقت ھے ، اور آج ھم سب ایٹم کی ساخت سے واقف ہیں‏ حالانکہ اسے دیکھ پانا آنکھ کے لیئے آج بھی ممکن نہیں ۔ 

ایسی ھی ایک تھیوری 1960 میں پیش کی گئی جسے 

string theory 

کہتے ہیں ۔ اس کی ڈیٹیلز بتانے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ 

انسان کی حرکت آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، اوپر اور نیچے ہونا ممکن ھے جسے تین ڈائیمینشنز یا 3D کہتے ہیں ۔ ہماری دنیا یا ہمارا عالم انہی تین ڈائیمینشز کے اندر قید ھے ھم اس سے باہر نہیں نکل سکتے ۔


 لیکن string theory کے مطابق مزید 11 ڈائمینشنز موجود ہیں ۔ میں ان گیارہ کی گیارہ ڈائمینشنز میں ممکن ہو سکنے والی باتیں بتاؤں گا ۔ 


اگر آپ پہلی ڈائنمینش‏ن....

میں ہیں تو آپ آگے اور پیچھے ہی حرکت کر سکیں گے ۔ 


اگر آپ دوسری ڈائیمینشن....

 میں داخل ہو جائیں تو آپ آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکیں گے ۔


تیسری ڈائیمینشن .....

میں آپ آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہر طرف حرکت کر سکیں گے اور یہی ہماری دنیا یا جسے ھم اپنا عالم کہتے ہیں ، ھے ۔‏اگر آپ کسی طرح سے

 چوتھی ڈائیمینشن....

 میں داخل ہو جائیں تو آپ وقت میں بھی حرکت کر سکیں گے ۔ 


پانچویں ڈائیمینشن.....

 میں داخل ہونے پر آپ اس عالم سے نکل کر کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے جیسا کہ عالم ارواح ۔


چھٹی ڈائیمینشن .....

میں آپ دو یا دو سے زیادہ عالموں میں حرکت کرنے کے‏قابل ہو جائیں گے اور میرے ذہن میں عالم اسباب کے ساتھ عالم ارواح اور عالم برزخ کا نام آتا ھے ۔


ساتویں ڈائیمینشن....

 آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ اس عالم میں بھی جا سکیں گے جو کائنات کی تخلیق سے پہلے یعنی بِگ بینگ سے پہلے کا تھا۔


آٹھویں ڈائیمینشن....

 آپ کو تخلیق سے پہلے کے بھی مختلف عالموں‏ میں لیجانے کے قابل ہو گی ۔


نویں ڈائیمینشن....

 ایسے عالموں کا سیٹ ہو گا جن میں سے ہر عالم میں فزکس کے قوانین ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہوں گے ۔ ممکن ھے کہ وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہو ۔


اور آخری اور دسویں ڈائیمینشن ۔۔۔

 اس میں آپ جو بھی تصور کر سکتے ہیں ، جو بھی سوچ‏ سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے خیال میں گزر سکتا ھے ، اس ڈائیمینشن میں وہ سب کچھ ممکن ہو گا ۔


اور میری ذاتی رائے کے مطابق جنت ۔۔۔ شاید اس ڈائیمینشن سے بھی ایک درجہ آگے کی جگہ ھے کیوں کہ

 حدیث قدسی میں آتا ھے کہ جنت میں میرے بندے کو وہ کچھ میسر ہو گا جس کے بارے میں نہ کبھی کسی آنکھ نے‏دیکھا ، نہ کبھی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گزرا ۔ 

اور دوسری جگہ یہ بھی آتا ھے کہ میرا بندہ وہاں جس چیز کی بھی خواہش کرے گا وہ اس کے سامنے ھی آ موجود ہو گی ۔


بالیقین جنات ، ھم سے اوپر کی ڈائیمینشن کے beings ہیں....

 اور یہ وہ دوسری سائینٹیفیک وجہ ھے

 جس کی‏ بناء پر ھم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ 

ان دس ڈائیمینشنز کے بارے میں جاننے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جنات کے بارے میں قرآن ہمیں ایسا کیوں کہتا ھے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ، 


یا پھر عفریت اتنی تیزی سے سفر کیسے کر سکتے ہیں جیسے سورۃ سباء میں ذکر ھے‏کہ ایک عفریت نے حضرت سلیمانؑ کے سامنے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا ۔ 

یا پھر کشش ثقل کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اڑتے پھرتے ہیں ۔


 یا پھر کئی دوسرے سوالات جیسے عالم برزخ ، جہاں روحیں جاتی ہیں ، 

یا عالم ارواح جہاں تخلیق سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے عہد لیا‏تھا کہ تم کسی اور کی عبادت نہیں کرو گے اور سب نے ہوش میں اقرار کیا تھا ، یا قیامت کے روز دن کیسے مختلف ہو گا ،

 یا شہداء کی زندگی کس عالم میں ممکن ھے ۔ 


ان تمام عالموں یعنی عالم برزخ ، عالم ارواح یا عالم جنات کے بارے میں تحقیقی طور پر سوچنا ایک بات ھے ،

 لیکن جس چیز نے ذاتی طور پر‏ میرے دل کو چھوا ......

وہ سورۃ فاتحۃ کی ابتدائی آیت ھے ۔


الحمد للہ رب العالمین ۔


 تمام تعریفیں اس اللّٰہ کے لیئے ، جو تمام عالموں کا رب ھے ۔ 

اور میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘تمام عالم’’ کے الفاظ کا جو اثر اب میں اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں ، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔۔ *

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !