سندھ میں کچے کے علاقے پر راج کرنے والے ڈاکو
دریائے سندھ سے جڑی کراچی کو میٹھا پانی دینے والی وسیع میلوں پھیلی جھیل کا تکون نما چھوٹے چھوٹے مٹی کے ٹیلوں پر مشتمل علاقہ۔ برطانوی دور حکومت میں جب نہری نظام بنایا گیا تھا تو حفاظتی بندوں کے اندرونی علاقے کو کچا اور بیرونی علاقے کو پکا قرار دیا گیا ہے۔ کشمور میں تقریباً 64 کلومیٹر، سکھر میں 40 کلومیٹر، گھوٹکی میں 78 کلومیٹر اور شکارپور میں 38 کلومیٹر کے قریب حفاظتی بند موجود ہے۔
یہاں شر، تیغانی، جاگیرانی، جتوئی سمیت مختلف بلوچ اور چاچڑ، مہر، میرانی و سندرانی سمیت دیگر سندھی قبائل آباد ہیں جو یہاں کی زرخیز زمین پر کاشتکاری کرتے اور مال مویشی پالتے ہیں۔ کچے کے علاقے کی زمین محکمہ جنگلات اور محکمہ ریوینیو کی ملکیت ہے جو کسی کو باضابطہ طور پر الاٹ نہیں کی گئی ہے۔ اس کے باوجود کچے میں زمین کی حد بندیوں اور مال مویشییوں کی چوری پر برادریوں میں جھگڑے معمول کی بات ہے جو بعض اوقات سنگین شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
کچے" جو گزشتہ 40 برسوں سے 3 صوبے کے ڈاکوؤں کی مشترکہ، محفوظ ترین پناہ گاہ اور جنت ہے۔ امداد حسین سہتو نے اپنی کتاب "ڈاکؤوں کی دھائی" میں لکھا تھا کہ صرف 1984 سے 1994 تک، ایک اندازے کے مطابق 11,436 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا، 1,337 سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا۔ سندھ میں اغوا برائے تاوان روز کا معمول بنا ہوا ہے، متاثرین اپنی رہائی کے لیے سالانہ دو ارب روپے ادا کرتے ہیں۔
لاڑکانہ، کندھ کوٹ، سکھر، شکارپور، گھوٹکی، کشمور، ایسے 8 اضلاع ہیں جن کی سرحدیں کچے سے ملتی ہیں۔ ایک جانب پنجاب اور دوسری طرف بلوچستان کی سرحد ہے۔ اطراف میں نیشنل ہائی وے لنک روڈ ان کا خاص نشانہ ہے۔ تاوان کے لئیے اغوا اور مزاحمت پر اندھا دھند گولیاں مار کر ہلاک کر دینا ان کے لئیے معمول کی بات ہے۔ سرکاری اندازے کے مطابق ہر وقت اوسط 400 سے زاید اغوا شدہ ان کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ انہیں بڑے بڑے وڈیروں اور سرداروں کی پشت پناہی حاصل ہے، جن کی کچے میں ہزاروں ایکڑ زمین ہے، ان میں سے کئی بڑے زمیندار سیاست میں بھی متحرک ہیں۔ جن میں صرف ایک مرحوم جتوئی کی زمین اس قدر بڑی ہے کہ اس کی حدود میں 6 ریلوے سٹیشن قائم ہیں۔
انٹرنیٹ ، میڈیا کے فروغ کے بعد ڈاکو بھی اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ اغوا کی 90 فیصد وارداتیں اب سوشل میڈیا کے ذریعے ہوتیں ہیں۔
: ہنی ٹریپ یعنی پھنسانے کے لیے عورتوں کا استعمال
ڈاکوؤں کو جب پکے کے علاقے تک آنے میں دشواری ہوئی تو انھوں نے خاتون کی آواز میں جھانسہ دینے کے لیے پنجابی، پشتو، سرائیکی سندھی ، بلوچی عورتیں رکھی ہوئی ہیں جو لوگوں کے ساتھ فیس بک یا کسی طرح رابطہ کرتی ہیں اور انھیں آنے کے لیے آمادہ کر لیتی ہیں۔ ’ہنی ٹریپ‘ کا شکار بننے والے افراد زیادہ تر اپنی گاڑی میں آتے ہیں۔ پھر ڈاکوؤں کا سہولت کار ان کو موٹر سائیکل پر لینے پہنچ جاتا ہے اور انھیں بتاتا ہے کہ ’میڈم نے بھیجا ہے۔ وہ انتظار کر رہی ہیں۔ اس دوران اگر کسی ناکے پر پولیس کی چیکنگ چل رہی ہو تو بھی پولیس کو یہ شبہ تک نہیں ہوتا کہ متاثرہ شخص موٹر سائیکل سوار کا دوست ہے یا اغوا ہونے جا رہا ہے۔ اسی طرح الیکٹریشن، پلمبر، مزدور، سستی گاڑی حاصل کرنے کی لالچ، آن لائن موٹر سائیکل رائیڈر، گندم والی مشین اور ایکسکیویٹر (کھدائی کی مشین) کے آپریٹرز جن میں سے زیادہ تر پنجاب اور خیبرپختونخو صوبے کے لوگ ہوتے ہیں یہی سب لوگ ان کا آسان شکار ہوتے ہیں۔
ایس ایچ او ٹھاکر کا کہنا ہے کہ آپ ڈاکوؤں کو کچے سے باہر آنے سے تو روک سکتے ہیں لیکن مغوی جب خود اغوا ہونے کچے کے علاقے میں چلا جائے تو بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔
ڈاکو باقاعدگی سے فیس بک پر آکر پولیس کو دھمکاتے ہیں۔ ویڈیوز میں سندھی اور سرائیکی گانوں کی ڈبنگ کے ساتھ اسلحے کے نمائش کے علاوہ پولیس آپریشن کے دوران کی ویڈیوز، پولیس حملوں پر جوابی کارروائی، مغویوں کے ورثا تک پیغام پہنچانے، مغویوں پر تشدد کی ویڈیوز بنا کر وہ لواحقین سے فوری تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ ایس ایس پی اگنی لاکھو کے مطابق کچے کے ڈاکو اپنے علاقے سے باہر نہیں نکلتے ان کے سہولت کار بندوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے کچے میں پہنچاتے ہیں۔ یہ ایک کاروبار ہے جس کی پوری لڑی ہے۔ یعنی اٹھانے والے کا حصہ، رکھنے والے کا حصہ، راستے میں جو لے کر آئے گا اس کا حص۔ خاص طور پر کرائے والی موٹر سائیکل چلانے والے، وہی تاوان کی رقم لیتے ہیں۔
آج تک ان کے خلاف کی گئی تمام تر انٹیلیجنس کاروایاں، تینوں صوبوں کی اجتماعی کوششیں، متعدد خفیہ آپریشنز، رینجرز کے ٹارگٹ حملے، فوج کے اشتراق سے وسیع تر مشترکہ کاروائیاں، ٹاسک فورسز کی تشکیل اور خفیہ ایجنسیز کی تمام کاروائیاں ناکام رہی ہیں اور شاید مستقبل میں بھی ناکام رہیں گی۔
اس کی وجہ کچے کے علاقے میں داخل ہونے کا ایک بھی زمینی راستہ موجود نہیں، اندر جاتی ہزارہا پانی نما سڑکیں ہیں، انتہائی پیچیدہ ، تنگ و دشوار ترین، پیچ در ہیچ، چاروں جانب گھنے جنگلات، بہت جگہ پر دن میں بھی نیم تاریکی چھائی رہتی ہے۔ کوئی ایک مرتبہ کسی طرح کچے میں داخل ہو جائے، واپسی ناممکن ہے، ہر راستہ ایک جیسا ہے، کسی بھی سمت سے کچے سے مرکزی جھیل میں داخل ہونے کے لئیے قریب 11 میل کا ناممکن سفر طے کرنا ہو گا۔ یہاں اندر گاؤں کے گاؤں آباد ہیں، ان کی مختلف برادریاں ہیں، یہیں آپس میں شادی بیاہ ہوتے ہیں، بچے پیدا ہوتے ہیں ساری زندگی ننگ دھڑنگ رہتے ہیں، پکی زمین پر کبھی ایک قدم نہیں رکھا اور یہیں مر جاتے ہیں، ، یہاں ڈویژن نفری، ٹینک، بکتر بند گاڑی، ہوائی حملے اور جدید ترین اسلحہ کسی کام نہیں آ سکتا۔ ٹھاکر
کچے کے ڈاکوؤں کے سہولت کار
کچے کے ڈاکوؤں کی جڑیں گہری اور مضبوط بنیادوں پر پکے کے ڈاکوؤں سے جڑی ہیں، تھانوں میں اکثریت انہی کی برادری والے لوگ ہیں، چاہے کوئی بھی حکومت ہو ہر آپریشن کی انہیں پہلے خبر مل جاتی ہے، لوٹ اور تاوان کی رقم ایمانداری سے متعلقہ تھانے پہنچا دی جاتی ہے، پہلے یہ منظم نہیں تھے مگر، موبائل اور انٹر نیٹ آ جانے کے بعد اب یہ اتنے منظم ہو چکے ہیں کہ اب ناقابل تسخیر قوت بن کر ریاست کے اندر ریاست بنا چکے، ان کے مضبوط روابط توڑنا ناممکن ہے۔
ایسا تو کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ ڈاکو بغیر کسی بیرونی مدد کے اتنے مضبوط ہو جائیں۔ کیونکہ انہیں اپنی طاقت بڑھانے کے لیے اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ انہیں باہر سے لانا پڑتا ہے یا پھر سہولت کار ان کو فراہم کر دیتے ہیں۔ ڈاکوؤں کے پاس خود تو اسلحہ بنانے کی استعداد کار تو موجود نہیں۔