آئی کیوب قمر کی تصاویر

Malik
0

  

آئی کیوب قمر سے ملنے والی تصاویر کی کوالٹی

Why Picture quality of Icube-Q is very low

آئی کیوب قمر پراجیکٹ کو لیڈ کرنے والے ماہر فلکیات پروفیسر خرم خورشید جو انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی میں پروفیسر ہیں۔ اور اس وقت چین میں پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ان کا پاکستانی سیٹلائٹ میں لگے کیمروں کی کوالٹی کے بارے میں کہنا ہے کہ ہائی ریزولوشن کیمرے یعنی ایسے کیمرے جن کی تصاویر بالکل واضح اور اچھی قسم کی ہوں ہم اس سیٹلائٹ میں شامل نہیں کر  سکتے تھے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں جو کہ نیچے بیان کی گئی ہیں۔



آئی کیوب قمر میں اچھے کیمرے کیوں نہیں لگائے گئے؟

 ان کا کہنا تھا کیونکہ ہمیں مخصوص وزن یعنی سات کلو گرام کے اندر رہتے ہوئے سیٹلائٹ بنانی تھی۔ اگر ہم اس میں ہائر ریزولوشن کیمرے شامل کرتے ہیں تو ایک تو ان کیمروں کو چلانے کے لیے توانائی کے ذخیرے کو بڑھانا پڑتا، جس کی وجہ سے سولر پینل، بجلی کنٹرول کرنے والے آلات اور بیٹریوں میں اضافہ ہوجاتا، ان سب کی وجہ سے سیٹلائٹ کا وزن بڑھ جاتا ۔

 خلائی مشن میں ایک ایک گرام وزن بھی بہت سوچ سمجھ کر اور بہت زیادہ حساب کتاب کرکے شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش آتا کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ جو کمیونیکیشن سپیڈ دی گئی ہے، وہ 1 kb فی سیکنڈ ہے تو اتنی کم کمیونیکیشن سپیڈ کے اندر ایک میگا پکسل والے کیمروں کی امیجز ہی بروقت وصول ہوسکتی ہیں۔ 

اگر ہم لوگ ہائی ریزولوشن کیمروں کے ذریعے امیجز لیتے تو اس کمیونیکیشن سپیڈ میں ہمیں کئی کئی دن ایک امیج وصول کرنے میں لگ جاتے، یہ مشن پہلے ہی صرف تین ماہ پر محیط ہے، اوپر سے ایک امیج پر کئی کئی دن لگا دینے سے یہاں سے کمانڈز بھیجنے اور دیگر ڈیٹا کے وصول میں دشواری ہوتی، جس سے مشن کی مجموعی کارکردگی متاثر ہو جاتی لہٰذا ہمیں کیمروں کی کوالٹی مشن کے حساب سے رکھنی پڑتی ہے۔

 ایک مخصوص ماحول میں رہ کر ہر چیز نصب کرنی پڑتی ہے۔ اگر وزن اور کم سپیڈ کا مسئلہ نہ ہوتا تو پھر ہم لوگ ہائر ریزولوشن کیمرے بھی ساتھ بھیج سکتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ ہے کہ ابھی یہ شروعاتی امیجز ہیں لیکن یہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے چاند کے نزدیک جائے گا اور جنوبی قطب کے نزدیک کے امیجز لے گا تو امیجز کوالٹی بہتر ہو جائے گی لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسلہ بھی دور ہو جائے گا۔

کیا آئی کیوب کو صرف چاند کی ہائی ریزولیوشن تصاویر کے لیے بیجھا گیا تھا؟

اس مشن کا مقصد اگر صرف تصاویر لینا ہی ہوتا تو ایسا تو زمین پر رہتے ہوئے ہائی ریزولیوشن کیمروں کی مدد سے بھی کیا جا سکتا ہے۔

 زمین سے لی گئی تصاویر میں بھی چاند کی سطح بہت واضح نظرآتی ہے ۔ اصل میں چاند کے مدار تک پہنچنا اور وہاں سے زمین تک ڈیٹا کی ترسیل یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ ابھی تک دنیا میں کم و بیش دس ایسے ممالک ہیں جو چاند کے مدار میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ایک تجرباتی مشن ہے جس کا مقصد نہ تو چاند پر لینڈ کرنا تھا اور نہ ہی ہائی ریزولیوشن تصاویر لینا۔

 اس کا مقصد ایک ایسی مشین کی تیاری تھا جو زمین سے باہر کے سخت ماحول میں ٹھیک طرح سے کام کرے اور وہاں سے جو بھی معلومات اکٹھی ہوں ان کو زمین تک پہنچائے۔ بظاہر یہ ایک عام سی بات نظر آتی ہے لیکن اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور مہنگا ترین عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک بہت کم ممالک ہی اس مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اس مشن کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں پاکستان کو چین کا بہت زیادہ تعاون حاصل رہا ہے۔ اگر خود پاکستان کو یہ مشن بیجھنا پڑتا تو اس کے لیے بہت بڑی رقم اور سالوں کی محنت درکار ہوتی۔ 

چین کا اپنا مشن خلا میں بیجھا جا رہا تھا۔ جس نے پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک کو اپنے سیٹلائیٹ بغیر کسی معاوضے کے ساتھ لے جانے کی پیشکش کی۔ دوسرے  دوست ممالک کی طرح پاکستان نے بھی اپنی پروپوزل پیش کی جو کہ چینی حکام نے قبول کر لی۔ یوں پاکستان کو بغیر کسی اضافی خرچے کے اپنی سیٹلائٹ چاند کے مدار تک پہنچانے کا سنہری موقع مل گیا۔



کیا پاکستان خود اپنا سیٹلائیٹ خلاء تک نہیں بھیج سکتا؟

پاکستان کے پاس یقینا ایسی مہارت موجود ہے جسے بروئے کار لاتے ہوئے بڑی آسانی سے خلا میں دور تک سیٹلائیٹ کو بیجھا جا سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں سے اہم چیز راکٹ لانچنگ کی صلاحیت ہے جو کہ پہلے سے پاکستان کا طرہ امتیاز ہے ۔ لیکن صرف راکٹ ٹیکنالوجی اس مقصد کے لیے کافی نہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی اور چیزیں بھی ہوتی ہیں جو اس کام کو مل کر سر انجام دیتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے سے خلاء میں موجود کمیونیکیشن کا نظام، تکنیکی سہولیات اور جدید ترین کمپیوٹرائز مینوفیکچرنگ  وغیرہ ۔ 

ان تمام تر صلاحیتوں کا حصول صرف اور صرف ایک خطیر رقم خرچ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جو کہ فی الوقت پاکستان کی ترجیحات میں شامل نہیں ۔ اگر پھر بھی ہمرے قارئین کو ان تمام باتوں پر یقین نہ آئے تو دلیل کے طور پر کچھ ایسے منصوبوں کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے جیسا کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ، جے ایف 17 اور میزائل پروگرام ۔ یہ بھی ایسے ہی منفرد کام ہیں جو کہ دنیا کے چند ہی ممالک آج تک کر پائے ہیں۔ 

ان تمام منصوبوں پر پاکستان نے بڑی خطیر رقم خرچ کی ہے۔ یعنی اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر معاشی مسائل نہ ہوں تو پاکستان خلاء میں دور تک جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ 


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !