فری انرجی جنریٹر کی حقیقت
آپ میں سے ہر ایک نے انٹرنیٹ پر درجنوں ایسی ویڈیوز دیکھی ہوں گی جن میں آپ کو ایک ایسا پہیہ دکھایا جاتا ہے جسے ایک بار گھما کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ پھر خود بخود ہمیشہ کے لیے گھومنا شروع کر دیتا ہے۔ اور پھر یوں آپ کو صاف ستھری اور تقریباً مفت بجلی ملنا شروع ہو جاتی ہے۔
Free Energy |
ویسے تو یہ ایک فزکس یا پھر یوں کہیں کہ سائنسی مضمون ہے لیکن ہم اسے عام فہم زبان میں سمجھنے کی کوشش کریں گے تا کہ وہ لوگ جن کو سائنس کی اتنی سمجھ بوجھ نہیں وہ بھی سمجھ لیں اور آئندہ کے لیے اس طرح کے کسی جھانسے میں نہ آئیں اور مالی نقصان سے بھی بچ جائیں۔
ہم روزمرہ زندگی میں درجنوں سائنسی ایجادات کا استعمال کرتے ہیں جیسا کہ ہوائی جہاز،گاڑی، موٹر سائیکل ، موبائیل فون وغیرہ۔ ان تمام ایجادات کے پیچھے کئی دہائیوں کی محنت کار فرما ہے۔ بعض ایسی بھی ایجادات ہیں جو اتفاقاً ایجاد ہو گئیں لیکن زیادہ تر کے پیچھے برسوں کی محنت اور تجربات ہیں۔
بجلی پیدا کرنے کے محتلف زرائع
بجلی کوبھی ایجاد ہوئے تقریباً دو سو سال گزر چکے ہیں ۔ تب سے لے کر آج تک سائنسدانوں نے کوئی ایسا طریقہ نہیں چھوڑا جس سے بجلی پیدا کی جا سکے۔ یعنی بہتے ہوئے پانی، تیز ہوا، بھاپ،سولر توانائی اور نیوکلیئر توانائی حتیٰ کہ زمین کے اندر موجود حرارت (جیو تھرمل انرجی) کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اب تک کے تمام تجربات کی روشنی میں پانی کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے بجلی پیدا کرنے کو آسان اور سستا ترین زریعہ سمجھا جاتا ہے۔
اگر آج ہماری سوچ ایک ایسے وہیل کی طرف جا سکتی ہے جو ایک مرتبہ چلا کر چھوڑنے سے خود بخود چلتا رہتا ہے اور ساری زندگی مفت بجلی فراہم کرتا رہتا ہے تو سوچیے کہ ہم سے پہلے گزر جانے والے سائنسدانوں نے ایسے تجربات نہیں کیے ہوں گے؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اتنے بڑے بڑے ڈیم بنانے کی کیا ضرورت ہے جن کو بنانے میں کئی کئی سال اور اربوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
Free Energy |
کیا فری انرجی بنائی جا سکتی ہے؟
سائنسی قوانین کے مطابق ہم نہ تو توانائی کو پیدا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے ختم یا تباہ کر سکتے ہیں ۔ ہم صرف توانائی کی ایک شکل کو دوسری شکل میں تبدل کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ بہتے پانی کی طاقت ، تیز ہوا، پانی گرم کر کے اس کی بھاپ اور نیوکلیئر توانائی کا استعمال کر کے بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ایسے کہا جائے کہ توانائی کی ایک شکل کو دوسری شکل میں تبدیل کر دیا جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔
اگر فری وہیل مثلاً ایسا پہیہ جو صرف ایک مرتبہ گھمانے سے ہمیشہ کے لیے گھومتا رہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو گاڑیوں میں تیل ڈالنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ انجن کو بھی صرف ایک مرتبہ بیٹری کی مدد سے گھما دیا جاتا جیسا سلف سٹارٹ انجن کو شروع میں گھمایا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ انجن خود بخود چلنا شروع کر دیتا۔
ہم سوشل میڈیا پر ایسی جو بھی ویڈیوز دیکھتے ہیں وہ سائنسی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہیں۔ ایسا صرف ویڈیوز پر ویوز لینے کے لیے کیا جاتا ہے۔
ہمیں ویڈیوز میں جو وہیل دکھائے جاتے ہیں ان میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ وہیل کو ہاتھ یا بجلی کی مدد سے گھمایا جاتا ہے پھر اس کی بجلی کی سپلائی بند کر کے خود جو وہ بجلی پیدا کرتا ہے اسی سے اس کو چلا دیا جاتا ہے یعنی اسی وہیل کو ہی بے وقوف بنا دیا جاتا ہے۔ جو کہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
اصل میں ایسا کوئی بھی جنریٹر آج تک بنا ہی نہیں جس کا آوٹ پٹ اس کے ان پٹ سے زیادہ ہو۔ یعنی طاقت کم استعمال کرے اور بجلی زیادہ دے۔ ان پٹ سے مراد وہ توانائی ہوتی ہے جو ہم پٹرول ، ڈیزل یا گیس وغیرہ کی شکل میں ہم جنریٹر کو مہیا کرتے ہیں ۔ آوٹ پٹ وہ توانائی جو ہمیں جنریٹر ہمیں بنا کر دیتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر ایسا وہیل بجلی کے دس یونٹ پیدا کرتا ہے تو خود اس وہیل کو چلانے کے لیے تیس یا پھر اس سے بھی زیادہ یونٹ کے برابر طاقت چاہیے ہو گی۔
ڈیم کا پانی جو ایک جنریٹر کو گھماتا ہے اس کا اندازہ کریں اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی کا اندازہ کریں جو کہ پانی کی طاقت کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ویڈیوز میں کیسے وہیل کو گھمایا جاتا ہے۔ آپ نے ایک بات ضرور دیکھی ہو گی کہ وہیل کو شروع میں بجلی یا پھر سولر وغیرہ سے گھمایا جاتا ہے اور بعد میں بجلی کی سپلائی کاٹ کر اس کی اپنی بنائی ہوئی بجلی پر شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے چند سیکنڈز تک تو جنریٹر گھوم سکتا ہے لیکن گھنٹوں تو دور کی بات ہے کئی منٹوں تک بھی ممکن نہیں۔
ایک اور سادہ سی مثال سے سمجھ لیں اگر چکی میں بیس کلو گندم ڈالی جائے تو ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ آٹا تیس کلو تک نکل آئے۔ ایسا ہونا فطرت کے قوانین سے ہی متصادم ہے۔
اصل مسئلہ بڑے وہیل کو گھمانے کا ہے وہ یا تو پانی کے پریشر سے گھومے گا، یا پھر ہوا، سٹیم ، تیل یا پھر نیوکلیر توانائی سے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی آپ کو فری وہیل انرجی کا جھانسہ دے تو اس کے چکر میں اپنے پیسے برباد نہ کریں۔ کیونکہ موجودہ حالات میں جب ہر کوئی سستے حل کی طرف جانا چاہتا ہے ایسے میں دھوکہ دینے والے لوگوں کے لیے بہت آسانی ہو جاتی ہے۔
اگر آپ کسی دریا یا نہر کے کنارے رہتے ہوں جہاں پانی کا بہاؤ کافی تیز ہو وہاں پر بجلی آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہے۔ یا پھر ساحلی علاقوں پر جہاں ہر وقت تیز ہوا چلتی ہو وہاں بھی ماہرین کی مدد سے ونڈ ٹربائن لگوا کر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
بصورت دیگر بغیر کسی بیرونی طاقت کے اس وہیل کو چلانا ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی گاڑی میں بیٹھ کر اسے مزید تیز چلانے کے لیے دھکا لگانا شروع کر دے۔