سموگ کیا ہے

Malik
0



سموگ کیا ہے؟

زہریلے دھوئیں گردوغبار اور آلودہ پانی کی آمیزش سے فضا ءمیں تحلیل ہونے والی آلودگی کو سموگ کہا جاتا ہے ۔سموگ کی عام طور پر دو اقسام ہوتی ہیں، جس میں سلفورس سموگ اور فوٹوکیمیکل سموگ شامل ہیں۔ سلفورس سموگ کو لندن سموگ اور فوٹو کیمیکل کو لاس اینجلس سموگ کہتے ہیں۔دنیا میں پہلی بار سموگ کا لفظ 1950 کی دہائی میں استعمال کیا گیا جب یورپ اور امریکہ کو پہلی با رصنعتی انقلاب کی وجہ سے فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔


سموگ کیا ہے


 اسموگ دو الفاظ دھواں(Smoke) اور دھند (Fog) کے باہمی اشترک سے بنا ہے جو کہ پہلی مرتبہ 1900ء کے اوائل میں لندن میں استعمال ہوا، جہاں دھند اور دھوئیں نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 

مختلف ذرائع کے مطابق یہ لفظ Dr. Henry Antoine des Voeux نے اپنے مکالے فوگ اینڈ اسموگ (Fog & Smog)میں استعمال کیا۔ 

سردیوں میں پنجاب خاص کر لاھور شہر شدید سموگ کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ سمو گ کے دوران شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حد نگاہ بھی کم ہو جاتی ہے اور سانس لینا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ سمو گ آلودہ ہوا کی وجہ سے شہریوں کو پھیپھڑوں ، سانس ، گلے اور آنکھوں کی بیماریاں لاحق رہتی ہیں۔


 لندن میں سموگ کی آفت

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے 72 سال قبل لندن شہر ایک خوفناک اسموگ سے گزر چُکا ہے ۔ دسمبر 1952 میں لندن پر ایسی تباہ کن اور مہلک دھند چھائی کہ جس نے چند ہی دنوں میں ہزاروں لوگوں کی جان لے لی۔ اسے "گریٹ اسموگ" یا عظیم دھند کا نام دیا گیا اور یہ واقعہ فضائی آلودگی کی بدترین مثالوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس سانحے میں ہوا اتنی زہریلی اور موٹی ہو گئی تھی کہ دن کے وقت بھی اندھیرا چھا گیا اور لوگوں کے لیے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا مشکل ہو گیا۔ 

اس قیامت خیز دھند نے پانچ دنوں کے اندر تقریباً 12,000 لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا اور ہزاروں لوگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہسپتال پہنچ گئے۔

یہ سانحہ 5 دسمبر کی صبح کو شروع ہوا، جب شہر میں دھند آہستہ آہستہ پھیلنے لگی۔ اس وقت لندن میں شدید سردی تھی، اور لوگوں نے اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے لئے کوئلہ جلانا شروع کیا۔ فیکٹریاں بھی پوری شدت سے کام کر رہی تھیں اور کوئلے کے دھوئیں نے فضاء کو زہر آلود بنا دیا تھا۔ اُس دن ہوا میں موجود فیکٹریوں، گاڑیوں، اور گھروں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے ایک ہولناک آمیزش پیدا کی۔ یہ زہریلے عناصر جب پانی کے بخارات کے ساتھ ملے تو تیزاب بنتا گیا، جس نے دھند کو اتنا خطرناک بنا دیا کہ سانس لینا بھی جان لیوا بن گیا۔


London Smog 1952


دھند کی گہرائی اور زہریلا پن اتنا بڑھ گیا کہ لوگوں کے لئے گھر سے نکلنا زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے برابر تھا۔ فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلے کیمیکلز کی موجودگی نے ایسی دھند کو جنم دیا جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوئی، آنکھوں میں جلن ہونے لگی اور لوگوں کے گلے میں تکلیف بڑھ گئی۔ ہوا کی یہ بوجھل زہریلی تہہ 30 میل تک پھیل گئی اور اتنی گاڑھی ہو گئی کہ لوگ اپنے ہاتھ کو دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہے۔

پانچ دنوں کے اس قیامت خیز عرصے کے دوران لندن کی سڑکیں اور عمارتیں ایک ملبے میں تبدیل ہو گئیں۔ دھند کی وجہ سے بسیں، گاڑیاں، اور ٹرینیں رک گئیں، اور ہوائی اڈوں پر پروازیں معطل ہو گئیں۔  اسموگ اتنا کثیف تھا کہ لوگوں کے چہروں پر کالے دھبے پڑ گئے تھے اور عمارتیں کالے دھوئیں سے ڈھک گئیں۔ سڑکوں پر چلنے والے لوگوں کے کپڑے اور چہرے پر کالک جمنے لگی۔  ہسپتالوں میں سانس کی بیماریوں کے مریضوں کا رش اتنا بڑھا کہ ہسپتالوں کی جگہیں کم پڑ گئیں اور ہزاروں لوگ اس جان لیوا دھند سے بچنے کی کوشش میں ناکام ہو گئے۔

دھند کے چھٹنے کے بعد بھی، اس کے اثرات مہینوں تک محسوس کیے گئے۔ لندن کے لوگوں کے ذہنوں پر اس تباہی نے گہرا اثر چھوڑا اور عوام نے حکومت سے فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔ 1956 میں برطانوی حکومت نے پہلی بار "کلین ایئر ایکٹ" متعارف کروایا، جس کا مقصد ایسی فضائی آلودگی کو روکنا تھا تاکہ مستقبل میں اس طرح کا کوئی سانحہ دوبارہ نہ ہو۔

یہ واقعہ آج بھی ایک یاد دہانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ماحولیات کو نظرانداز کرنا اور فضائی آلودگی کو کم کرنے میں ناکامی انسانیت کے لیے کتنی بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔


دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پاکستان کانمبر

دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پاکستان کے دو شہر شامل ہیں۔

ائیر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے اور کراچی تیسرے نمبر پر ہے جب کہ دونوں شہروں کا فضائی معیار انتہائی مضر صحت پایا گیا ہے۔ اکتوبر میں لاہور کا ائیر کوالٹی انڈیکس 229 ریکارڈ کیا گیا اور کراچی کا ائیر کوالٹی انڈیکس 181 ریکارڈ کیا گیا۔

دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں عراق کے دارالحکومت بغداد کا دوسرا نمبر ہے جہاں ائیر کوالٹی انڈیکس 200 ریکارڈ کیا گیا۔


Smog in Lahore 


خیال رہے کہ ائیر کوالٹی انڈیکس 151 سے 200 کے درمیان ہو تو اسے مضر اور 201 سے 300 انڈیکس کو انتہائی مضر قرار دیا جاتا ہے جب کہ 301 سے اوپر ائیر کوالٹی انڈیکس خظرناک آلودگی تصور کی جاتی ہے

اسموگ والی آلودہ فضا میں سانس لینے سے مضر ذرات اور سانس کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کے جراثیم جسم کے اندر جا کر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ آلودہ فضا میں سانس لینا کئی سگریٹیں پھونکنے کے برابر ہے کیونکہ دونوں کے مضر اثرات تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ آبادی میں بے پناہ اضافے، جگہ جگہ فیکٹریوں کی بھرمار اور ان سے نکلنے والے دھوئیں کی وجہ سے سموگ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

لاہور شہروں میں درختوں کی کٹائی اور مضافات میں جنگلوں کے خاتمے کی وجہ سے بھی اسموگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حاملہ عورتوں کو اسموگ کے دنوں میں گھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بچے کی وقت سے پہلے پیدائش کے ساتھ نوزائیدہ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اسموگ اور سردی میں مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کے خطرات اور بد اثرات سے بچاجا سکتاہے۔

٭اسموگ کے دوران اگر Visibility خطرناک حد تک کم ہو تو اس دوران ڈرائیونگ سے پرہیز کیا جائے۔

٭گاڑیوں میں اسپیشل اسموگ لائیٹس کا لگانا ضروری ہے۔

٭اسموگ کے دنوں میں منہ اور ناک پر ماسک کا استعمال آلودگی سے بچاتا ہے۔ آنکھوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کالے شیشے کی عینک استعمال کریں۔ ماسک کا استعمال نہ صرف آپ کو سموگ سے بچائے گا بلکہ اس سے آپ کورونا سے بھی محفوظ رہیں گے۔

٭صبح سویرے گرم پانی میں ایک چمچ شہد ڈال کر چائے کی طرح چسکیاں لے کر پیئں۔ اس سے آپ کے گلے کے انفیکشن سے محفوظ رہیں گے۔

٭جب بھی باہر سے آئیں تو آنکھوں اور چہروں کو ٹھنڈے پانی سے دھوئیں۔


سموگ کی حفاظتی تدابیر 

اسمو گ کے دنوں میں مچھلی کے تیل کے کیپسول ضرور لے لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صبح سویرے زیتون کے تیل کا ایک چمچ لے لیں تو اس سے آپ کا نظام تنفس آلودگی سے بچا رہے گا۔ اسموگ کی وجہ سے ہونے والی علامات میں مختلف قسم کی اینٹی بایوٹک اور دواؤں کے بے جا استعمال کاکوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ادویات کے بے جا اور غیر ضروری استعمال سے بچیں۔

صبح شام لیمن گراس قہوہ استعمال کریں۔

سردیوں میں اسموگ کے اثرات کم کرنے کے لیے ڈرائی فروٹ استعمال کریں۔ گرما گرم چائے کے ساتھ میوے والا گرما گرم سوجی کا حلوہ بھی صحت کے لیے مفید ہے۔

اسموگ کے دوران اور سردیوں میں خاص طور پر چھوٹے بچوں کو اچھی طرح کور کر کے رکھیں کیونکہ سردی کے اثرات بچوں پہ زیادہ ہوتے ہیں۔

حکومت کے لیے ضروری کہ وہ دھواں اور آلودگی کنٹرول کے لیے اسموگ کمیشن 2017ء کی سفارشات کے مطابق اقدامات کرے، تا کہ اسموگ کے خطرات سے مناسب حد تک بچا جا سکے۔ نومبر اور دسمبر کے مہینے میں فیکٹریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان سفارشات پر عمل کریں۔ اینٹوں کے بھٹوں کو بھی دو ماہ کے لیے بند رکھا جانا چاہیے۔

سموگ کے خطرے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ زیادہ درخت لگانے سے فضا میں الودگی کم ہو گی اور اسموگ میں بھی کمی ہوگی۔

عوام الناس کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اسموگ کے خطرات سے بچاؤکے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے اور جابجا کوڑا اور فصلوں کا بھوسہ چلانے پر پابندی لگائی جائے۔ اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔

فصلوں کا بھوسہ جلانے سے سموگ کے ساتھ حد نگاہ صفر ہو جاتی ہے۔ جس سے جان لیوا حادثات ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں موٹروے کے آس پاس فصلوں کی باقیات جلانے کے باعث کئی جاں لیوا حادثات ثابت ہوئے۔




ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !