خلا میں خلاباز بیمار پڑ جائیں تو کیا ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں آپ نے سنیتا ولیمز کی صحت کی خرابی کا سنا ہو گا۔ اور یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ ان کا اتنی دور علاج کیسے ہوتا ہوگا۔ اس بلاگ میں ہم آپ کو یہی بتانے کی کوشش کریں گے کہ اگر کوئی خلا باز خلا میں بیمار پڑ جائے تو اس کا علاج کیسے ممکن بنایا جاتا ہے،جبکہ وہاں پر مستقل بنیادوں پر کوئی ڈاکٹر بھی موجود نہیں ہوتا۔ تاہم سائنسدان اس مسلے کے حل کے لیے مسلسل کوشش میں لگے ہوئے ہیں مستقبل میں وہاں ایک روبوٹ بھی بطور سرجن تعینات کیے جانے کے امکان ہیں۔
سنیتا ولیم |
دو امریکی خلا باز سُنیتا ولیمز اور بیری ولمور آٹھ دن کے لیے خلا میں گئے لیکن تکنیکی خرابی کی وجہ سے انھیں وہاں آٹھ ماہ تک رہنا پڑ جائے گا۔ |
بوئنگ سٹار لائنر کے ساتھ کچھ تکنیکی مسائل پیش آ جانے کے بعد امریکی خلائی ادارہ ناسا اب انھیں سپیس ایکس کے خلائی جہاز ڈریگن سے زمین پر واپس لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سپیس ایکس ڈریگن خلائی جہاز پہلے بھی خلا میں جا چکا ہے۔
بیشتر میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈین نژاد خلاباز سُنیتا ولیمز جو اس وقت بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر قیام پزیر ہیں ان کا وزن کم ہو رہا ہے اور وہ بیمار ہو رہی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں جاری ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کا وزن کافی کم ہو چکا ہے۔
تاہم ناسا کے حکام نے ای میل کے ذریعے بتایا ہے کہ خلائی سٹیشن پر موجود خلابازوں کا ان کے تفویض کردہ فلائٹ سرجن باقاعدگی سے معائنہ کرتے ہیں اور ان کی صحت اچھی ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسی ہنگامی صورت حال پیش آ جائے جس میں فوری طبی امداد کی ضرورت ہو تو خلابازوں کا علاج کون کرے گا؟ کیا وہاں ڈاکٹر ہوں گے؟ انھیں کس قسم کی طبی سہولیات میسر ہیں؟
اگر خلاباز کی طبیعت اچانک خراب ہو جائے تو ان کا علاج کیسے ہوتا ہے؟
پچھلے کچھ عرصے سے امریکی خلائی ادارہ ناسا انسانوں کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن بھیج رہا ہے تاکہ وہاں رہنے کے امکانات کو جانچا جا سکے اور تحقیق کی جا سکے۔
خلا میں خلابازوں کی مدد کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ خاص طور پر جب ان کی صحت بگڑ جاتی ہے۔
امریکی ایرو سپیس اور دفاعی کمپنی نارتھروپ گرومین کارپوریشن نے اپنے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ کس طرح خلا میں خلابازوں کو فوری طبی سہولیات کی ضرورت پڑتی ہے اور انھیں یہ کس طرح فراہم کی جا سکتی ہیں۔
خلابازوں کی صحت کی نگرانی کے لیے ناسا وقتاً فوقتاً ٹیلی میڈیسن سسٹم کی پیروی کرتا ہے جس سے مرض کا علاج ہوتا ہے۔ لیکن در اصل خلاباز ہی اس کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔
خلابازوں کو خلا میں بھیجنے سے پہلے انھیں خلائی سٹیشن پر استعمال ہونے والے تمام طبی آلات کی ضروری تربیت دی جاتی ہے اور انھیں استعمال کرنے کا طریقہ بھی سکھایا جاتی ہے۔ عملے کو 40 گھنٹے تک کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
ایک تربیت یافتہ شخص کسی بھی طبی ہنگامی صورتحال کو سنبھال سکتا ہے۔ تربیت یافتہ فرد سر درد، کمر درد، جلد کے مسائل، جلد کی جلن، دانتوں کے مسائل وغیرہ کا علاج کر سکتا ہے لیکن اگر صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوں تو کیا ہو گا؟
رپورٹس کے مطابق بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے پاس صرف ایک بنیادی طبی کٹ ہے۔ اس میں ایک فرسٹ ایڈ کٹ، صحت کی صورتحال پر ایک کتاب، ایک ڈی فبریلیٹر (ایک برقی چارج والا آلہ جو دل کی دھڑکن کو معمول پر لاتا ہے) شامل ہے۔ دیگر اشیا میں پورٹیبل الٹراساؤنڈ، آنکھوں کی جانچ کا آلہ وغیرہ شامل ہیں۔
یہ الٹراساؤنڈ مشین خلابازوں کے جسم کے اندر موجود چیزوں کی واضح تصاویر فراہم کر سکتی ہے تاہم الٹراساؤنڈ کے ذریعے لی گئی تصاویر زمین پر موجود طبی ٹیم کو بھیجی جاتی ہیں۔
زمین سے خلابازوں کی نگرانی
خلا باز کے ساتھ مسئلہ کیا ہے اور ان کا علاج کیا اور کیسے کیا جائے، اس کا تعین زمین پر موجود طبی ٹیم کرتی ہے۔
ناسا زمین سے خلابازوں کی صحت کی نگرانی کرتا ہے۔ ان کے پاس فلائٹ سرجن بھی ہیں۔
زمین پر رہتے ہوئے خلابازوں کی نگرانی ایرو سپیس میڈیسن کے ماہرین کرتے ہیں۔
ان کی جسمانی ورزش اور طبی تربیت کو یہ ماہرین مہینوں تک مانیٹر کرتے ہیں۔
اس دوران وہ خلابازوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر لیتے ہیں۔ خلا میں جاتے وقت ان کی صحت کی جانچ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
خلابازوں کی ہر ہفتے فلائٹ سرجن کے ساتھ ذاتی طبی کانفرنسں بھی ہوتی ہے۔ وہ زمین پر ایک کنٹرول سینٹر سے خلابازوں کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ناسا خلابازوں کے بائیو میٹرک ڈیٹا اور الٹراساؤنڈ کے نتائج بھی جمع کرتا ہے۔ یہ مشینوں کے دوران خلابازوں کی صحت کا تجزیہ کرنے میں بہت مددگار ہے۔
ہیلن شرمین ایک برطانوی خلاباز تھیں۔ سنہ 1991 میں انھوں نے سوویت خلائی سٹیشن پر آٹھ دن گزارے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ طویل عرصے تک خلائی سٹیشن پر رہتے ہیں انھیں دن میں دو گھنٹے ورزش کرنی چاہیے۔ صفر کشش ثقل میں رہنے سے ہڈیوں کی کمزوری کو روکنے کے لیے تین مختلف مشینیں انھیں ورزش کرنے میں مدد کرتی ہیں۔‘
’ورزش کے آلے (اے آر ای ڈی) کو پٹھوں کو مضبوط کرنے کی مشقوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خلائی سٹیشنوں پر رہنے والے ٹریڈمل بھی استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پٹی کو سخت رکھا جاتا ہے تاکہ یہ خلا میں اِدھر اُدھر نہ ہو۔ ایک سائیکل ایرگومیٹر بھی استعمال کی جاتی ہے۔‘
خلائی امراض کی ماہر ڈاکٹر ورشا جین نے ناسا کے ساتھ خلا میں خواتین کی صحت پر کام کیا ہے۔ ان کے مطابق خلا میں خواتین کے بیمار ہونے کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم زمین پر واپس آنے کے بعد مردوں کے بیمار ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
روبوٹک سرجری
عملے میں ایک قابل ڈاکٹر کا ہونا ضروری ہے جو زمین سے ہزاروں میل دور طبی ہنگامی صورت حال میں مدد کر سکے۔
لیکن اگر خلا میں اچانک سرجری کی ضرورت پڑ جائے تو کیا ہو گا؟ کیا یہ ممکن ہے؟
اس کے لیے ناسا روبوٹ کو خلائی سرجن میں تبدیل کر رہا ہے، جسے زمین سے چلایا جا سکے گا اور طبی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایک چھوٹے سرجیکل روبوٹ نے رواں سال فروری میں صفر کشش ثقل میں سرجری کا پہلا ڈیمو مکمل کیا۔ اس روبوٹ کا نام سپیس میرا ہے۔
ناسا کی جانب سے اٹھایا گیا یہ اہم قدم نہ صرف انسانوں کو طویل عرصے تک خلا میں کامیابی کے ساتھ سفر کرنے کے قابل بنائے گا بلکہ وہاں بغیر کسی پریشانی کے سرجیکل ایمرجنسی آپریشن بھی کیے جا سکیں گے۔
امید ہے کہ اسے دور دراز کے علاقوں میں استعمال کیا جا سکے گا جہاں زمین پر بھی طبی خدمات دستیاب نہیں ہیں۔
خلا میں خلابازوں کی ہڈیوں کو نقصان کا خطرہ رہتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مائیکرو گریویٹی میں طویل عرصے تک رہنے کی وجہ سے ان کی ہڈیوں کے سخت ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
پٹھوں اور ہڈیوں کی کمزوری
خلا میں کشش ثقل کی کمی پٹھوں اور ہڈیوں کی کثافت کو کم کرتی ہے۔ خلا میں ہڈیوں کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ چونکہ ان پر زمین جیسا دباؤ نہیں ہوتا اس لیے ان کی کثافت کم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ہڈیاں نازک ہوجاتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
کشش ثقل کے بغیر عضلات تیزی سے کمزور ہو جاتے ہیں۔ زمین کے مقابلے میں خلا میں ہڈیوں سے کیلشیم جیسے معدنیات تیزی سے کم ہو جاتے ہیں جس سے ہڈیوں کی کثافت اور پٹھوں کی طاقت کم ہوتی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ہمارے جسم میں خلیے اور عضلات زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے مسلسل ری سائیکل ہو رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ چھ ماہ سے زیادہ کشش ثقل کے اندر نہ رہیں تو ہڈیاں اور پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور ہڈیوں کی کثافت 25-30 فیصد اور پٹھوں کی کثافت 50 فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے خلابازوں کے لیے کچھ سرگرمیاں کرنا مشکل ہو سکتا ہے جیسے کہ لینڈنگ کے بعد ماڈیول سے باہر نکلنا۔ اس اثر کو کم کرنے کے لیے وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں اور اپنے پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط رکھتے ہیں۔
اگر خلاباز چھ ماہ سے زیادہ خلا میں رہتے ہیں تو زمین پر واپس آنے پر ان کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ان کی ہڈیوں کی کثافت کم ہونے سے کمر درد جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے نمٹنے اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے انھیں تین ماہ تک سپلیمنٹس دیے جاتے ہیں۔