کیا اپنی نازیبا ویڈیوز خود لیک کی جاتی ہیں

Malik
0



 سوشل میڈیا صارفین اور مبینہ لیک ویڈیوز 


گزشتہ دنوں آپ نے بھی شوشل میڈیا پر متعدد ایسی رپورٹس دیکھی ہوں جن میں مشہور ٹک ٹاکرز کی نازیبا ویڈیوز کا چرچا ہوتا رہا ہے۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ جیسے یہ ویڈیوز انجانے میں ، غلطی سے یا پھر کسی انتقام کے نتیجے میں وائرل کر دی گئی ہیں ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کسی نے اس طرح کی نازیبا ویڈیوز بنا بنا کر سٹور کر رکھی ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کو ایک خاص مقصد کے لیے شوشل میڈیا پر ڈالا جا رہا ہے۔




آئے دن کسی نہ کسی کی مشہور شخصیت کی ویڈیوز آ رہی ہوتی ہیں اور چونکہ ویڈیوز برہنہ ہوتی ہیں تو ان کو ڈایریکٹ کوئی بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نہیں ڈال سکتا جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا صارفین ان ویڈیوز کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی منت سماجت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوتا ہے جس سے ان سٹارز کے کردار کو اخلاقیات کے پیمانے سے ناپنے تولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔


صارفین کا ردعمل 

اسی طرح سوشل میڈیا پر بنے ہوئے ’ہیش ٹیگ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’اوہو آج ان کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔‘ انجان اور گمنام چہروں کے بارے میں مزید معلومات کے لیے گوگل سرچ انجن کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔


خاص بات یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر ہی کچھ صارفین ایسے ہیں، جو باقاعدہ طور پر پھیلانے میں سرگرم رہتے ہیں کہ اگر ویڈیوز درکار ہیں تو ہمیں مسیج کریں یا پھر ’فالو بیک‘ کی پیش کش دے کر ان ویڈیوز کی فراہمی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے موقع پرست لوگ اپنے پیجز یا پھر وہب سائٹس کو پروموٹ کرتے ہیں ۔


پچھلے دنوں میں وائرل ہونے والی ان ویڈیوز میں موجود خواتین کی شہرت اور مقبولیت سرحد پار تک پہنچی ہے۔ پڑوسی ملک نے بھی ان ویڈیوز کو خوب پزیرائی دی ہے۔ یہاں تک کہ انڈین نیوز ویب سائٹس نے خصوصی طور پر ان کے متعلق چٹ پٹی مصالحہ دار خبریں اور بلاگز بھی پوسٹ کیے ہیں۔


ایک دور وہ بھی تھا جب کسی کو بدنام کرنے کے لیے ملٹی مسیجنگ سروس (ایم ایم ایس) کا سہارہ لیا جاتا۔ ماضی میں جب انٹرنیٹ کی نئی نئی دنیا کا در کھلا تو گاہے بگاہے کسی نہ کسی کی کچھ ایسی تصاویر لیک ہوتیں جو قابل اعتراض یا غیر اخلاقی ہونے کے زمرے میں آتیں۔ ان میں ماڈلز اور ٹی وی فنکارائیں شامل رہیں۔

کسی کو اس بات پر اعتراض رہا کہ یہ خوبرو حسینائیں مختصر لباس میں ساحل سمندر پر سیر سپاٹا کیوں کررہی ہیں۔ سمارٹ فونز کی آمد نے ہر ایک کو چھوٹا سا لیپ ٹاپ دے دیا جس کے ذریعے وہ ہر چیز تک رسائی کر سکتے ہیں۔ اب مثبت کے ساتھ ساتھ منفی استعمال بھی دھڑلے سے کیا جانے لگا۔


ٹیکنالوجی میں جدت آئی تو اس کے بعد تو سمجھیں ویڈیوز کی بہار آ گئیں۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار ’آڈیوز‘ بھی لیک ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیک ویڈیوز کے سیلاب میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں رکھی گئی۔ سیاست دان، کھلاڑی، فنکار، ماڈلز یا ٹک ٹاکرز سب نشانہ بنائے گئے بلکہ بن رہے ہیں۔ نجی تصاویر یا ویڈیوز پرچٹخارے دار اظہار خیال سے زیادہ اس پہلو پرغور کیوں نہیں کیا جاتا کہ کیوں اور کس لیے لیک کا یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور ہدف تنقید خواتین ہی کیوں بنتی ہیں؟


 کیا اپنی ہی نازیبا ویڈیوز جان بوجھ کر ’لیک‘ کی جاتی ہیں؟




عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اداکارہ یا ٹک ٹاکرز یا پھر وی لاگرز ان ویڈیوز کو جان بوجھ کر ’لیک‘ کرتی ہیں تاکہ گمنامی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بجائے پلک جھپکتے میں شہرت مل جائے جس کے بعد ان کے فالورز کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔


یہ مفروضہ درست مان لیا جائے تو حالیہ دنوں میں جن دو ٹک ٹاکرز کی ہیجان خیز ویڈیوز ہر ایک کے موبائل فون تک پہنچیں، ان دونوں نے اپنے تمام تر سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو غیر فعال کر دیا ہے۔ ان میں سے ایک نے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوشل میڈیا اور شو بزنس کو چھوڑنے کا اعلان بھی کیا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ارادی طور پر عمل کیا گیا تھا تو پھر سوشل میڈیا سے غیر فعال ہونے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔


ایک عام رائے یہ ہے کہ لیک ویڈیوز کا شکار یہ خواتین قریبی مرد دوست کی انتقامی کارروائی کی بنا پر اس پریشانی سے دوچار ہوتی ہیں۔ کسی کا دل ٹوٹتا ہےتو وہ اپنی ذاتی زندگی کو منظر عام پر لے آ تاہے اور پھر تنہائی کے لمحات میں اور خمار کی حالت میں بنائی گئی یہ انتہائی نجی ویڈیوز کا لیک کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بعض دفعہ انتقاماً یا دولت کے لیے کوئی خاتون بھی یہ کام کر سکتی ہے۔


ابتدا میں جب اس نوعیت کی غیر اخلاقی ویڈیوز آتی تھیں تو متاثرہ خاتون یہی دعویٰ کرتی تھیں کہ ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون وہ نہیں۔ بلکہ ایک نامی گرامی پاکستانی فلم سٹار نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ کسی نے ان کا ماسک لگا کر یہ قابل اعتراض ویڈیو بنائیں، جبکہ بظاہر ایسا نہیں تھا۔ خیر حالیہ دنوں میں تو لیک ویڈیو ز میں نظر آنے والی خواتین اس نوعیت کا کوئی دعویٰ نہیں کرتیں۔ ماسوائے ان کے جن کی ’ڈیپ فیک‘ سے تصاویر یا ویڈیوز بنی ہوں۔


آخر ویڈیوز لیک کا فائدہ کیا ہے؟

بہر حال ایک بات تو طے ہے جیسے ہی سوشل میڈیا پر ان سٹارز کی ویڈیوز آئی ہیں تب سے لیکر ان کی شہرت میں بھرپور اضافہ ہوا ہے اور ان کے فالورز میں بھی غیر معمولی طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر آئے دن نیا نیا مواد ڈالا جا رہا ہے لوگ ایک ہی طرح کے مواد کو دیکھ دیکھ کر اکتا جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کوئی متنازع اور مصالحے دار چیز سامنے آتی ہے صارفین اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اسی لیے ایسا مواد راتوں رات وائرل ہو جاتا ہے۔ پھر کچھ دن چرچا ہونے کے بعد لوگ بھول جاتے ہیں اور  پھر زندگی معمول پر آ جاتی ہے۔


نازیبا ویڈیوز لیکس کے معاملے پر حکومتی اداروں کی خاموشی 

ماضی میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ جب بھی اس طرح کی ویڈیوز لیک ہوتی ہیں تو حکومت کی طرف سے ان کے بارے میں اس طرح کا ردعمل سامنے نہیں آتا جیسا کہ سیاسی پوسٹس کے بارے میں آتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو معاشرے کے لیے اس طرح کی لیکس بھی زہر قاتل کا کام کر رہی ہیں ۔ 


اس سے ن صرف معاشرتی بلکہ معاشی بگاڑ بھی پیدا ہو رہا ہے۔ بجائے صحت مند مقابلے کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے ویوز اور فالورز کو بڑھا کر آمدنی بڑھائی جا رہی ہے۔ ایسے میں اچھا کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور یوں پورا معاشرہ اچھے مواد سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 


حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ایسی ویڈیوز یا تصاویر کی جان بوجھ کر وائرل کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے تا کہ اپنے مالی فائدے کے لیے اتنی بڑی کمیونٹی کو بے وقوف نہ بنایا جائے ۔ جب کھبی اس طرح کا مواد ٹرینڈنگ میں ہوتا ہے تو باقی سب لوگوں کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر سرچز اسی مواد سے متعلق کی جاتی ہیں اور یوں انٹرنیٹ سے جڑے کاروبار بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ انٹرنیٹ کا استعمال کسی کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ اس کے معاشرے پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

Tags

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !