شوگر کی اقسام اور علاج
گزشتہ کچھ دہائیوں سے بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے والی موذی اور تکلیف دہ بیماری ذیابیطس جسے عام طور پر شوگر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا میں 80 کروڑ جبکہ پاکستان میں تین کروڑ 60 لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہیں۔ طبی لحاظ سے شوگر کی دو اقسام معروف ہیں:
ٹائپ ون (Autoimmune) ، اور ٹائپ ٹو (Lifestyle)۔
![]() |
ذیابیطس کی اقسام |
ذیابیطس ٹائپ I
ذیابیطس ٹائپ ون جسم کے دفاعی نظام کو لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کی مدد سے نقصان پہنچاتا ہے۔
انسولین جسم میں موجود گلوکوز کو توانائی میں بدلنے اور بلڈ شوگر لیول معمول پر رکھنے میں مدد دیتی ہے جو ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں میں نہیں ہوپاتا۔
ٹائپ 1 کا مرض کسی بھی عمر میں لاحق ہوسکتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ بیماری کیسے لاحق ہوتی ہے یا اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے۔
ذیابیطس ٹائپ 1 کے شکار افراد کو مرض کی شدت بڑھنے سے روکنے کے لیے انسولین کے انجیکشن لگانا پڑتے ہیں۔
ذیابیطس ٹائپ II
ذیابیطس ٹائپ 2 اس مرض کی سب سے عام قسم ہے اور 90 فیصد افراد کو اسی کا سامنا ہوتا ہے۔
اس مرض کے لاحق ہونے کے نتیجے میں جسم انسولین کے اثرات پر ردعمل کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔
انسولین بنانے والے لبلبے کے خلیات اسے بنانے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر جسم کے لیے درکار مقدار کی فراہمی سے قاصر رہتے ہیں۔
ذیابیطس ٹائپ 2 لاحق ہونے کی صورت میں کچھ عرصے بعد انسولین بنانے والے نظام پر دباﺅ بڑھ جاتا ہے اور خلیات تباہ ہونے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں جسم کی انسولین بنانے کی صلاحیت مزید کم ہوجاتی ہے۔
ٹائپ ٹو کا مرض عام طور پر 40 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو لاحق ہوتا ہے جس کے علاج کے لیے غذا اور ورزش وغیرہ پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے، تاہم موجودہ عہد کے ناقص طرز زندگی کے نتیجے میں یہ نوجوانوں کو بھی اپنا شکار بنانے لگا ہے۔
ذیابیطس کی عام علامات
اس مرض کا شکار ہونے کی صورت میں کچھ علامات ایسی ہوتی ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ آپ کو اپنا چیک اپ کروا لینا چاہئے تاکہ ذیابیطس کی شکایت ہونے کی صورت میں اس کے اثرات کو آگے بڑھنے سے روکا جاسکے۔
جیسے بار بار پیشاب آنا، معمول سے زیادہ پیاس لگنا، جسمانی وزن میں غیرمتوقع کمی، ہر وقت تھکاوٹ اور زخم یا خراشوں کے بھرنے میں تاخیر جیسے مسائل شامل ہیں۔
کیا ذیابیطس کا علاج خوراک سے ممکن ہے؟
عالمی طبی تحقیقی ادارے شوگر پر قابو پانے کے لیے مختلف انداز میں تحقیق اور کلینکل ٹرائلز کر رہے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر اس بیماری کے حوالے سے حقائق کی کمی اور غلط معلومات کی بھرمار ہے۔ یہ ایک عام رویہ بن گیا ہے کہ جب کوئی موضوع زیرِ بحث آتا ہے تو اس کے متعلق مواد کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ’شوگر ریورسل پروگرامز‘ کے اشتہارات عام ہو چکے ہیں۔ ’’شوگر کا مکمل خاتمہ‘‘، ’’انسولین سے نجات‘‘، اور ’’لبلبے کا علاج‘‘ جیسے غیر مستند دعوے عام ہیں۔ شوگر جیسے اذیت ناک مرض کے ستائے ہوئے لوگ ان دعووں کی طرف فوری متوجہ ہو جاتے ہیں۔ مگر ان دعووں پر یقین کرکے صحت کو داؤ پر لگانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق کوئی ایسا طریقہ یا دوا سامنے نہیں آئی جو شوگر کا مکمل خاتمہ کر سکے۔ تاہم، خوراک کے مناسب اور متوازن انتخاب سے شوگر کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
جدید تحقیق اور مستند علاج
جدید دور میں امراض کی تحقیق کے لیے ماہرین نے واضح اصول وضع کیے ہیں۔ کسی بھی دوا یا علاج کو قابلِ قبول بنانے کے لیے اسے سینکڑوں مریضوں پر آزمایا جاتا ہے اور اس کے نتائج طبی جرائد میں شائع کیے جاتے ہیں۔ ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس میں کئی اعضاء، افعال متاثر ہوتے اور علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ دنیا بھر کے طبی ماہرین اور دواساز کمپنیاں شوگر سے نجات کی مؤثر دوا کی دریافت کے لیے مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔ شوگر کے علاج میں غیر مصدقہ دعووں یا اشتہارات پر یقین کرنے کے بجائے مستند ماہرین سے رجوع کریں۔
شوگر سے بچاؤ کے عملی اقدامات
شوگر کے اثرات اور پیچیدگیوں سے بچاؤ ممکن ہے۔ ذیل میں کچھ اہم اقدامات کی نشاندہی کی جا رہی ہے جو اس بیماری سے محفوظ رہنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:
(1) غذا میں احتیاط: میدہ، گیس والے مشروبات، پروسسڈ فوڈز، فاسٹ فوڈز، کیفین، سفید چینی، اور چکنائی کو اپنی خوراک سے نکال دیں۔ معالج کے مشورے سے متوازن اور معتدل غذا استعمال کریں۔
(2)ورزش اور چہل قدمی: روزانہ کم از کم 30 منٹ تک چہل قدمی کریں اور ہفتے میں پانچ دن ورزش کو معمول بنائیں۔ ورزش خالی پیٹ اور سورج کی روشنی میں کرنا زیادہ مؤثر ہے۔
(3) قدرتی پروٹین کا استعمال: انڈہ، دیسی مرغی، مٹن، دیسی گھی، مکھن، اور دہی جیسی غذائیں استعمال کریں۔ تیل کے لیے زیتون، سرسوں، یا تلوں کے تیل کو ترجیح دیں۔
(4) موسمی پھل اور سبزیاں: موسمی پھل اور سبزیاں اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔ بے موسمی سبزیوں اور پھلوں سے گریز کریں۔
(5) ذہنی دباؤ سے بچاؤ: ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ کم کریں۔ ریلیکس کرنے کے لیے یوگا یا مراقبہ کریں۔
(6) صحت بخش کھانا: کھانا کم از کم چھے گھنٹے کے وقفے سے کھائیں۔ بار بار کھانے سے معدہ کمزور ہوجاتا ہے اور معدے کی کمزوری پورے بدن کو کمزور اور بیمار کردیتی ہے۔ شوگر ٹائپ 2 والوں کے لیے بہترین طرزعمل تو صبح وشام کھانے کی ترتیب ہے۔ ناشتہ پیٹ بھر کر کیا جائے اور شام کاکھانا بھی بھرپور ہوتو جسم صحت مند و توانا رہتا ہے۔
غیر مستند ٹوٹکوں کا نقصان
جس قدر ممکن ہوسکے سنے سنائے ٹوٹکوں، سوشل میڈیا کے وائرل نسخوں اور اپنا علاج خود کرنے کی روش ترک کر دیں۔ گھریلو ٹوٹکے بعض اوقات نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی جڑی بوٹی کا انتخاب و استعمال طبی ماہر کی مشاورت سے کریں۔
شوگر اور جڑی بوٹیاں
اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ قدیم سے مختلف جڑی بوٹیاں جیسے کریلے، گڑمار بوٹی، میتھی دانہ وغیرہ شوگر کنٹرول کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں لیکن ان کا استعمال بھی معالج کے مشورے سے ہی مفید ہوسکتاہے۔ ادھوری خوراک نقصان دہ ہے
کیٹو ڈایٹ، لو کارب اور ہائی فیٹ کے چکر سے نکل کر متوازن اور بھرپور خوراک کا انتخاب و استعمال کریں۔ موسمی پھل سبزیاں، ترکاریاں، خشک میوہ جات اور دوسرے غذائی اجزاء اعتدال میں رہتے ہوئے ان سے استفادہ لازمی کریں کیونکہ ادھوری غذا مزید بدنی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ متوازن اور معتدل غذا ہی ہمارے بدن کی قوت مدافعت کو تواناکرتی ہے۔ بصورت دیگر قوت مدافعت کمزور ہوکر مزید کئی بیماریاں بدن پر مسلط ہوجائیں گی۔
بہت سارے مریضوں کی تعداد ایسی بھی ہے جو شوشل میڈیا پر غیر مستند شدہ شوگر ریورسل پروگرامز کا حصہ بن کر اپنی رہی سہی صحت بھی گنوا دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اناج روٹی اور دوسری مقوی غذائیں مکمل چھوڑنے سے وقتی طور پر بدن ہلکا تو محسوس ہونے لگتا ہے لیکن جسمانی ضروریات کی عدم فراہمی سے جسم کمزور ہوکر کئی امراض میں مبتلاہوجاتا ہے۔
ذیابیطس یقیناً ایک ایسا مرض ہے جس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے اثرات اور پیچیدگیوں سے بچاؤ ممکن ہے۔ صحت مند طرزِ زندگی، متوازن خوراک، اور ماہر معالج کی نگرانی ہی اس بیماری سے لڑنے کا مؤثر اور محفوظ طریقہ ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود غیر مصدقہ دعووں اور اشتہارات سے متاثر ہونے سے گریز کریں اور مستند ماہرین سے رجوع کریں۔ صحت مند زندگی کے اصول اپنائیں۔ تاکہ اس موذی مرض کے اثرات کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کیا جا سکے۔