Doomsday Clock
قیامت کی فرضی گھڑی کیا ہے؟
آج کل سوشل میڈیا پر ایک بات چل رہی ہے کہDoomsday Clock (قیامت کی گھڑی) کو ایک سیکنڈ آگے بڑھا دیا گیا ہے، یعنی اب یہ گھڑی 89 سیکنڈز ٹو مڈ نائٹ (آدھی رات) پر سیٹ ہے۔ یہ خبر پوری دنیا میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ گھڑی کیا ہے؟ اسے کب اور کیوں بنایا گیا؟ اور اسے ایک سیکنڈ آگے بڑھانے کا کیا مطلب ہے؟ آئیے، اس پر ایک تفصیلی نظر ڈالتے ہیں۔
![]() |
Doomsday Clock |
Doomsday Clock کیا ہے؟
Doomsday Clock ایک علامتی گھڑی ہے جو انسانیت کو درپیش عالمی خطرات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس گھڑی کا مقصد انسانیت کو ان خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا ہے جو ہماری تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہاں پر ہم ایک بات کو واضح کرتے چلیں کہ اس گھڑی کے مطابق اس قیامت کا اندازہ نہیں لگایا جا رہا جسے مسلمان یا کئی دیگر مذاہب روز آخرت سمجھتے ہیں۔ یہ گھڑی محض ایک سائنسی آلہ ہے جو انسانیت کو درپیش خطرات کی بنیاد پر اس بات کا تعین کرتا ہے کہ انسانیت کو ختم ہونے میں کتنا وقت رہ گیا ہے۔ خطرات اگر زیادہ ہوں تو گھڑی کا وقت آگے کی طرف بڑھا دیا جاتا ہے اور اگر کمی دیکھنے میں آئے تو اس کا وقت پیچھے کر دیا جاتا ہے۔ اس گھڑی کے مطابق آدھی رات یعنی 12 بجے کو "قیامت" کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جتنا وقت آدھی رات کے قریب ہوگا اتنا ہی خطرہ بڑھا ہوا سمجھا جائے گا۔
یہ گھڑی 1947 میں Bulletin of the Atomic Scientists نامی تنظیم نے بنائی تھی۔ اس وقت اس کا مقصد جوہری جنگ کے خطرات سے آگاہ کرنا تھا، لیکن اب اس میں ماحولیاتی تبدیلیوں، بائیوٹیکنالوجی، اور دیگر تباہ کن ٹیکنالوجیز جیسے عوامل بھی شامل ہو چکے ہیں۔
Doomsday Clock کا وقت کون طے کرتا ہے؟
Doomsday Clock کا وقت سائنسدانوں، ماہرین، اور نوبل انعام یافتہ افراد پر مشتمل ایک بورڈ طے کرتا ہے۔ یہ بورڈ عالمی حالات کا جائزہ لیتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ گھڑی کو آگے بڑھانا ہے یا پیچھے۔ اس فیصلے میں درج ذیل عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے:
1. جوہری جنگ کا خطرہ: دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد اور ان کے استعمال کا امکان۔
2. ماحولیاتی تبدیلی: موسمیاتی تبدیلیوں، گلوبل وارمنگ، اور قدرتی آفات کے اثرات۔
3. ٹیکنالوجی کے خطرات: مصنوعی ذہانت، بائیوٹیکنالوجی، اور سائبر وارفیئر جیسے عوامل۔
4. سیاسی عدم استحکام: عالمی تنازعات، جنگوں، اور سیاسی کشیدگی کا اثر۔
Doomsday Clock کی تاریخ
Doomsday Clock کو پہلی بار 1947 میں 7 منٹ سے آدھی رات پر سیٹ کیا گیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک اس کا وقت 25 بار تبدیل ہو چکا ہے۔ اس گھڑی کے مطابق 1947 میں آدھی رات تک سات منٹ باقی تھے جو اب کم ہو کر 89 سیکنڈز رہ گئے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانیت کس قدر تیزی کے ساتھ اپنی تباہی کی جانب گامزن ہے ۔ گھڑی کو پہلے بھی کئی مرتبہ آگے یا پیچھے کیا جا چکا ہے۔ اس کی تاریخ میں چند اہم موڑ یہ ہیں۔
1953: جب امریکہ اور سوویت یونین نے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا، تو گھڑی کو 2 منٹ سے آدھی رات پر سیٹ کیا گیا۔ یہ اب تک کا سب سے خطرناک وقت تھا۔
1991: سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، گھڑی کو 17 منٹ سے آدھی رات پر پیچھے کر دیا گیا۔ یہ اب تک کا سب سے محفوظ وقت تھا۔
2020:گھڑی کو 100 سیکنڈز سے آدھی رات پر سیٹ کیا گیا، جو اس سے پہلے کا سب سے قریب ترین وقت تھا۔
2023: گھڑی کو 90 سیکنڈز سے آدھی رات پر سیٹ کیا گیا، جو اب تک کا سب سے خطرناک وقت تھا۔
ایک سیکنڈ آگے بڑھنے کا کیا مطلب ہے؟
حال ہی میں سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ Doomsday Clock کو ایک سیکنڈ آگے بڑھا دیا گیا ہے، یعنی اب یہ 89 سیکنڈز ٹو مڈ نائٹ پر سیٹ ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلی بظاہر معمولی لگتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں خطرات اور بڑھ گئے ہیں۔ اس تبدیلی کی ممکنہ وجوہات یہ ہو سکتی ہیں:
1. جوہری تنازعات میں اضافہ: روس-یوکرین جنگ اور دیگر علاقائی تنازعات نے جوہری جنگ کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔
2. موسمیاتی بحران:موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں، جس سے قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
3. ٹیکنالوجی کے نئے خطرات: مصنوعی ذہانت اور بائیوٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے امکانات۔
Doomsday Clock ہمیں کیا پیغام دیتی ہے؟
Doomsday Clock صرف ایک علامتی گھڑی نہیں ہے، بلکہ یہ انسانیت کے لیے ایک تنبیہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہماری غلطیاں اور لالچ ہمیں تباہی کے دہانے پر لا سکتے ہیں۔ لیکن یہ گھڑی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمارے پاس اب بھی وقت ہے۔ اگر ہم مل کر کام کریں، تو ہم اس گھڑی کو پیچھے کر سکتے ہیں۔
ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے
Doomsday Clock کا ایک سیکنڈ آگے بڑھنا ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔ ہمیں جوہری ہتھیاروں کے خاتمے، ماحولیاتی تحفظ، اور ٹیکنالوجی کے ذمہ دارانہ استعمال کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم آج چوکنا ہو جائیں، تو کل کو ہم اپنی دنیا کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔