پاکستان میں معدومیت کے خطرات سے دوچار انواع

Malik
0

 


جانور جو پاکستان میں معدومیت کے خطرات سے دوچار ہیں 


پاکستان قدرتی حسن اور حیاتیاتی تنوع سے مالا مال ملک ہے، جہاں نایاب اور خوبصورت جانوروں کی ایک وسیع انواع پائی جاتی ہیں۔ تاہم، بدقسمتی سے، ان میں سے کئی انواع معدومیت کے خطرات سے دوچار ہیں۔ ان جانوروں کی بقا کو خطرات درپیش ہیں، جن میں غیر قانونی شکار، قدرتی مسکن کی تباہی اور موسمیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ اس آرٹیکل میں ہم پاکستان میں معدومیت کے خطرات سے دوچار جانوروں کے بارے میں تفصیل سے بات کریں گے، تاکہ ان کی اہمیت اور تحفظ کی ضرورت کو اجاگر کیا جا سکے۔  


پاکستان میں معدومیت کے شکار جانور 


ہمارے ماحولیاتی نظام میں ہر جانور ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چاہے وہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والا سنو لیپرڈ ہو یا دریائے سندھ میں تیرنے والی انڈس ڈولفن، یہ سب ہمارے ماحول کا حصہ ہیں۔ ان کے بغیر، ماحولیاتی توازن بگڑ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف جنگلی حیات بلکہ انسانوں کے لیے بھی سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس بلاگ کا مقصد ان جانوروں کے بارے میں آگاہی بڑھانا اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کی طرف توجہ دلانا ہے۔  


اس بلاگ میں ہم پاکستان میں پائے جانے والے چند ایسے ہی جانوروں کے بارے میں بات کریں گے، جو معدومیت کے خطرات سے دوچار ہیں۔ ان جانوروں کے بارے میں تفصیل سے بتایا جائے گا کہ وہ کہاں پائے جاتے ہیں اور انہیں کون سے خطرات درپیش ہیں۔ نیز یہ کہ ان کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اپنے قارئین کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان جانوروں کو بچانا کیوں ضروری ہے اور ہم سب مل کر اس مقصد میں کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔  


برفانی چیتا (Snow Leopard)


برفانی چیتا پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں، خاص طور پر ہمالیہ، قراقرم، اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ خوبصورت اور پراسرار جانور اونچائی والے علاقوں میں رہتا ہے، جہاں درجہ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے۔ سنو لیپرڈ اپنی موٹی کھال اور لمبی دم کی وجہ سے مشہور ہے جو اسے سرد موسم میں بھی گرم رہنے میں مدد دیتی ہے۔


برفانی چیتا 
Photo credit: Google Images


سنو لیپرڈ کی آبادی کو سب سے بڑا خطرہ غیر قانونی شکار اور رہائش گاہ کے نقصان سے ہے۔ مقامی لوگ بعض اوقات اسے اس کی کھال، ہڈیوں، اور دیگر اعضا کے لیے شکار کرتے ہیں، جو روایتی ادویات اور زیورات میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، مویشیوں کے چرنے والے علاقوں میں اضافہ اور انفراسٹرکچر کی ترقی نے سنو لیپرڈ کے قدرتی ماحول کو متاثر کیا ہے۔


سنو لیپرڈ کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں سنو لیپرڈ کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ پروجیکٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ، مقامی آبادیوں کو اس کے تحفظ میں شامل کرنے کے لیے آگاہی مہمات چلائی گئی ہیں۔ تاہم اس نایاب جانور کو بچانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔



مارخور (Markhor)


مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے اور یہ ملک کے شمالی پہاڑی علاقوں، خاص طور پر چترال، ہنزہ، اور کالام میں پایا جاتا ہے۔ اس کے لمبے شاندار سینگ اور مضبوط جسمانی ساخت اسے پہاڑی جانوروں میں منفرد بناتی ہے۔ مارخور کو پہاڑی چٹانوں پر چڑھنے اور خطرناک علاقوں میں حرکت کرنے کی صلاحیت کے لیے جانا جاتا ہے۔

مارخور 
Photo credit: Google Images


مارخور کو بھی سب سے بڑا خطرہ غیر قانونی شکار سے ہے۔ کیونکہ اس کے سینگ کو ٹرافی کے طور پر پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، رہائش گاہ کا نقصان اور مویشیوں کے ساتھ خوراک کے لیے مقابلہ بھی اس کی آبادی کو متاثر کر رہا ہے۔ جنگلات کی کٹائی اور انسانی سرگرمیوں نے مارخور کے قدرتی ماحول کو محدود کر دیا ہے۔


مارخور کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں قومی پارکس کا قیام اور شکار پر پابندیاں شامل ہیں۔ عالمی سطح پر مارخور کو IUCN کی ریڈ لسٹ میں "خطرے سے دوچار" کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ مقامی کمیونٹیز کو اس کے تحفظ میں شامل کرنے کے لیے بیداری مہمات بھی چلائی گئی ہیں۔



ایشیائی چیتا (Asiatic Cheetah)

ایشیائی چیتا کبھی پاکستان کے صحرائی اور خشک علاقوں میں پایا جاتا تھا، لیکن اب یہ تقریباً معدوم ہو چکا ہے۔ اس کی آخری باقیات ایران کے چند علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ایشیائی چیتا کو اس کی تیز رفتار اور خوبصورت جسمانی ساخت کے لیے جانا جاتا ہے، جو اسے شکار کے لیے بہترین بناتی ہے۔

ایشیائی چیتا 
Photo credit: Google Images


ایشیائی چیتا کی معدومیت کی بنیادی وجہ غیر قانونی شکار اور رہائش گاہ کا نقصان ہے۔ انسانی آبادی میں اضافے اور زرعی زمینوں کے پھیلاؤ نے اس کے قدرتی ماحول کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، شکار کے لیے اس کے شکار جانوروں کی کمی نے بھی اس کی بقا کو مشکل بنا دیا ہے۔


ایشیائی چیتا کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے، کیونکہ یہ جانور اب یہاں نہیں پایا جاتا۔ تاہم، ایران میں اس کی آبادی کو بچانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان میں اس کے ماحول کو بحال کرنے کے لیے مستقبل میں اقدامات کی ضرورت ہو سکتی ہے۔


ہمالیائی بھورے ریچھ (Himalayan Brown Bear)

ہمالیائی بھورا ریچھ پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں، خاص طور پر دیامر اور ہنزہ میں پایا جاتا ہے۔ یہ ریچھ اونچائی والے علاقوں میں رہتا ہے اور سرد موسم میں ہائبرنیشن (سردی کی نیند) میں چلا جاتا ہے۔ اس کی موٹی کھال اور بڑا جسم اسے سردی سے بچاتا ہے۔


بھورے ریچھ 
Photo credit: Google Images


ہمالیائی بھورے ریچھ کو سب سے بڑا خطرہ رہائش گاہ کے نقصان اور انسانی سرگرمیوں سے ہے۔ جنگلات کی کٹائی، سڑکوں کی تعمیر، اور سیاحت نے اس کے قدرتی ماحول کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، غیر قانونی شکار بھی اس کی آبادی کو کم کر رہا ہے۔


ہمالیائی بھورے ریچھ کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں قومی پارکس کا قیام اور بیداری مہمات شامل ہیں۔ تاہم، اس کی آبادی کو بچانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر رہائش گاہ کے تحفظ کے لیے۔



انڈس ڈولفن (Indus River Dolphin)

انڈس ڈولفن دریائے سندھ میں پائی جانے والی ایک نایاب مچھلی ہے۔ یہ ڈولفن صرف پاکستان میں پائی جاتی ہے اور اس کی تعداد انتہائی کم ہے۔ انڈس ڈولفن کو اس کے چھوٹے سر اور لمبی چونچ کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اس مچھلی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پیدائشی طور پر اندھی ہوتی ہے۔ اس میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ 


انڈس ڈولفن 
Photo credit: Google Images


انڈس ڈولفن کو سب سے بڑا خطرہ پانی کی آلودگی اور دریائی بندوں کی تعمیر سے ہے۔ بندوں کی وجہ سے ڈولفن کی نقل و حرکت محدود ہو گئی ہے، جس سے اس کی افزائش نسل متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، پانی میں کیمیائی مادوں کی آلودگی بھی اس کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔


انڈس ڈولفن کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں ڈولفن کے لیے محفوظ علاقوں کا قیام اور بیداری مہمات شامل ہیں۔ تاہم، اس کی آبادی کو بچانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر پانی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے۔



ہمالیائی لومڑی (Himalayan Fox)

ہمالیائی لومڑی پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ لومڑی اونچائی والے علاقوں میں رہتی ہے اور اس کی موٹی کھال اسے سردی سے بچاتی ہے۔ ہمالیائی لومڑی کو اس کے چھوٹے کان اور گھنی دم کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔

Hamalyan Fox
Photo credit: Google Images


ہمالیائی لومڑی کو سب سے بڑا خطرہ رہائش گاہ کے نقصان اور شکار سے ہے۔ انسانی سرگرمیوں اور مویشیوں کے چرنے نے اس کے قدرتی ماحول کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، غیر قانونی شکار بھی اس کی آبادی کو کم کر رہا ہے۔


ہمالیائی لومڑی کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں قومی پارکس کا قیام اور بیداری مہمات شامل ہیں۔ تاہم، اس کی آبادی کو بچانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر رہائش گاہ کے تحفظ کے لیے۔



سبز رنگ کا سمندری کچھوا (Green Sea Turtle)

گرین سمندری کچھوا پاکستان کے ساحلی علاقوں، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر پایا جاتا ہے۔ یہ کچھوا اپنے بڑے سائز اور ہلکے سبز رنگ کی وجہ سے مشہور ہے۔ گرین سمندری کچھوا سمندر میں گھاس کھاتا ہے اور اس کی عمر 80 سال تک ہو سکتی ہے۔


Green Tuttle
Photo credit: Google Images


گرین سمندری کچھوا کو سب سے بڑا خطرہ سمندری آلودگی اور ماہی گیری سے ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی اور تیل کے اخراج نے اس کی صحت کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، ماہی گیری کے جال میں پھنسنے سے بھی اس کی آبادی کم ہو رہی ہے۔


گرین سمندری کچھوا کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں ساحل کی صفائی اور بیداری مہمات شامل ہیں۔ تاہم، اس کی آبادی کو بچانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر سمندری آلودگی کو کم کرنے کے لیے۔



ہمالیائی آئی بیکس (Himalayan Ibex)

ہمالیائی آئی بیکس پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جانور اونچائی والے علاقوں میں رہتا ہے اور اس کی بڑی سینگ اسے پہچاننے کا اہم ذریعہ ہیں۔ ہمالیائی آئی بیکس کو پہاڑی چٹانوں پر چڑھنے کی صلاحیت کے لیے جانا جاتا ہے۔

Photo credit: Google Images


ہمالیائی آئی بیکس کو سب سے بڑا خطرہ غیر قانونی شکار اور رہائش گاہ کے نقصان سے ہے۔ انسانی سرگرمیوں اور مویشیوں کے چرنے نے اس کے قدرتی ماحول کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، غیر قانونی شکار بھی اس کی آبادی کو کم کر رہا ہے۔


ہمالیائی آئی بیکس کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں قومی پارکس کا قیام اور آگاہی مہمات شامل ہیں۔ تاہم، اس کی آبادی کو بچانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر رہائش گاہ کے تحفظ کے لیے۔



چیتا (Leopard)

چیتا پاکستان کے مختلف علاقوں، خاص طور پر شمالی پہاڑی علاقوں اور صحرائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جانور اپنی طاقت اور چالاکی کے لیے مشہور ہے۔ چیتا کو اس کے دھبے دار فر اور مضبوط جسمانی ساخت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔


چیتا کو سب سے بڑا خطرہ غیر قانونی شکار اور رہائش گاہ کے نقصان سے ہے۔ انسانی آبادی میں اضافے اور زرعی زمینوں کے پھیلاؤ نے اس کے قدرتی ماحول کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، غیر قانونی شکار بھی اس کی آبادی کو کم کر رہا ہے۔


چیتا کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں قومی پارکس کا قیام اور بیداری مہمات شامل ہیں۔ تاہم، اس کی آبادی کو بچانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر رہائش گاہ کے تحفظ کے لیے۔




سفید سر والی بطخ (White-headed Duck)

سفید سر والا گیدڑ پاکستان کے جھیلوں اور دلدلی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ پرندہ اپنے سفید سر اور سیاہ جسم کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس بطخ کو تیراکی اور غوطہ خوری کی صلاحیت کے لیے جانا جاتا ہے۔

Photo credit: Google Images 


اس کو سب سے بڑا خطرہ رہائش گاہ کے نقصان اور شکار سے ہے۔ جھیلوں اور دلدلی علاقوں کی تباہی نے اس کے قدرتی ماحول کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، غیر قانونی شکار بھی اس کی آبادی کو کم کر رہا ہے۔


اس کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں محفوظ علاقوں کا قیام اور شکار پر پابندی شامل ہیں۔ تاہم، اس کی آبادی کو بچانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر رہائش گاہ کے تحفظ کے لیے۔




پاکستان میں معدومیت کے خطرات سے دوچار جانوروں کے بارے میں بات کرنا نہ صرف ان کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، بلکہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہماری زمین پر موجود ہر جاندار کا ایک خاص مقام ہے۔ سنو لیپرڈ، مارخور، انڈس ڈولفن، اور دیگر انواع ہمارے ماحولیاتی نظام کا اہم حصہ ہیں، اور ان کے بغیر ہمارا ماحول نامکمل ہو جائے گا۔ ان جانوروں کو بچانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، تاکہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے ایک صحت مند اور متوازن ماحول چھوڑ سکیں۔  


ان جانوروں کے تحفظ کے لیے ہمیں اپنے روزمرہ کے اقدامات پر بھی غور کرنا ہوگا۔ جنگلات کی کٹائی کو روکنا، غیر قانونی شکار کے خلاف آواز اٹھانا، اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا ایسے اقدامات ہیں جو ہم سب اپنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی ان جانوروں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جیسے کہ محفوظ پناہ گاہوں کا قیام ۔  


آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہماری زمین پر موجود ہر جاندار کا وجود ہمارے لیے ایک نعمت ہے۔ ان جانوروں کو بچانا صرف ہمارا فرض نہیں، بلکہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اگر ہم آج ان کے تحفظ کے لیے اقدامات نہیں کریں گے، تو آنے والی نسلیں ان خوبصورت مخلوقات کو صرف تصویروں میں دیکھ سکیں 

گی۔ آئیے، مل کر ان جانوروں کو بچانے کے لیے کوشش کریں اور ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھیں۔  

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !