ڈیپ سیک کا اتنا چرچا کیوں ہو رہا ہے
Deepseek Vs Chat GPT
ڈیپ سیک چین کی طرف سے تیار کیا جانے والا اوپن سورس آرٹیفیشل انٹیلیجنس ماڈل ہے۔ پہلے سے موجود اے آئی ماڈلز کی موجودگی میں اس ایپلیکیشن کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے اور اس نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں کیا انقلاب برپا کر دیا ہے؟ آج کے بلاگ میں ہم ایسے ہی کچھ سوالات کے جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
![]() |
Deepseek vs chat gpt |
ڈیپ سیک بمقابلہ چیٹ جی پی ٹی
ڈیپ سیک کی وجہ سے امریکی کمپنیوں کو کیسے نقصان پہنچا
اس سے پہلے مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی بیشتر کمپنیوں کا تعلق امریکا سے ہے۔ جیسا کہ چیٹ جی پی ٹی، میٹا اور گوگل جیمنی وغیرہ۔ امریکہ سے باہر مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والا واحد ملک چین ہے۔
امریکی کمپنی NVIDIA اس سے پہلے GPU جن کو عام الفاظ میں مصنوعی ذہانت کو چلانے والی چپ بھی کہا جا سکتا ہے بنانے والی واحد کمپنی تھی۔ امریکہ نے ان چپس کو بیرون ملک بیچنے پر بھی پابندی لگا رکھی تھی۔ اس طرح امریکہ صرف اکیلا ملک تھا جو مصنوعی ذہانت کے سافٹویئر بنانے کے قابل تھا۔ چین نے ان چپس کو استعمال میں لائے بغیر ہی پہلے سے موجود چپس میں تبدیلی کر کے انہیں اس قابل بنایا کہ ان پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ماڈلز کو چلایا جا سکے۔
اس طرح امریکہ میں تیار کی جانے والی مہنگی چپس اپنی افادیت کھو بیٹھیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکی کمپنیوں کی بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی30 نومبر 2022 کو امریکی کمپنی اوپن اے آئی کی جانب سے لانچ کیا گیا تھا۔ دو سال کے عرصے میں چیٹ جی پی ٹی کے صرف پلے سٹور پر دس ملین سے زیادہ ڈوانلوڈ ہیں۔ اتنے ہی ڈائونلوڈ ڈیپ سیک نے اپنے آغاز سے لیکر ابھی تک تقریباً 25 دنوں میں مکمل کر لیے ہیں جو کہ چیٹ جی پی ٹی کے لیے ایک خطرے کی بات ہے۔
امریکی مصنوعی ذہانت کے مقابلے میں اچھا ہونا
چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں ڈیپ سیک کا دعویٰ ہے کہ وہ اس سے کہیں بہتر ہے۔لیکن عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دونوں اے آئی ماڈل کافی اچھے ہیں۔ کچھ چیزوں میں کسی ایک سافٹویئر کو دوسرے پر برتری حاصل ہو سکتی ہے لیکن عمومی طور پر چین کی طرف سے انتہائی کم لاگت سے تیار کردہ ڈیپ سیک ان امریکی کمپنیوں کو مات دیتا دکھائی دیتا ہے۔
اوپن سورس
ڈیپ سیک کا R1 ایک اوپن سورس ماڈل ہے ۔ اوپن سورس کا مطلب یہ ہے کہ عام صارفین کے ساتھ ساتھ اس کو ڈویلپرز مقامی مصنوعی ذہانت کی ایپلیکیشنز میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر عام الفاظ میں بات کی جائے تو ڈیپ سیک نے اپنا کوڈ جس پر اسے بنایا گیا ہے اسے عام عوام کے لیے عام کر دیا ہے۔ جو کوئی بھی اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہے بلا معاوضہ استعمال کر کے اپنا ذاتی اے آئی ماڈل بنا سکتا ہے۔ جبکہ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر اس جیسے مڈالز نے اپنی پروگرامنگ کو اوپن سورس نہیں رکھا ہوا۔ جیسے جیسے مقامی ڈویلپرز اسے استعمال کریں گے تو مقامی سطح پر مصنوعی ذہانت کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔ یوں مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں تیزی دیکھنے میں آئے گی۔
ڈیپ سیک پر اٹھائے جانے والے اعتراضات
ڈیپ سیک کی قابلیت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا تو انکار کرنا شاید مشکل ہے ۔ مگر ڈیپ سیک کو سنسرشپ کا سامنہ ضرور ہو سکتا ہے۔ چین میں بہت سی چیزوں کو حکومتی پالیسیوں کے مطابق چلایا جاتا ہے اسی لیے معترضین اس ڈیپ سیک پر سنسرشپ کا الزام عائد کرتے ہیں۔
مخالفین ایک اور اعتراض ڈیٹا کو لے کر کر رہے ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ چین میں تمام کمپنیاں اپنا ڈیٹا حکومتی اداروں کے ساتھ شئیر کرنے کی پابند ہیں اور یوں آپ کا ڈیٹا حکومتی رسائی میں آسکتا ہے جو کہ سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے امریکی سپریم کورٹ نے ٹک ٹاک پر بھی امریکی شہریوں کے ڈیٹا کو لے کر اعتراض کیا اور پھر ٹک ٹاک کو پابند بنایا گیا کہ اگر وہ امریکہ میں کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں لازمی طور پر امریکی شہریوں کا ڈیٹا امریکی کمپنیوں کی شراکت سے امریکہ کے اندر ہی رکھنا پڑے گا۔ عام الفاظ میں یہ کہ ٹک ٹاک امریکہ میں امریکی سرپرستی میں چلے گا اور چین کو ٹک ٹاک نہ چاہتے ہوئے بھی فروخت کرنا پڑے گا۔